بیجنگ (شِنہوا) سعودی عرب اور ایران نے دو ماہ کے اندر سفارتی تعلقات بحال کرنے اور اپنے سفارت خانے اور مشن دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ اتفاق رائے گزشتہ ہفتے بیجنگ میں چین کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کے بعد سامنے آیا ہے۔
مبصرین نے کہا ہے کہ اس حیرت انگیز معاہدے نے ایک اچھی مثال قائم کی ہے کہ کس طرح خطے کے ملک بات چیت اورمشاورت کے ذریعے تنازعات اوراختلافات کو حل کر سکتے ہیں اور اس سے چین جیسی ایک ذمہ دار بڑی طاقت کی جانب سے ایک ہنگامہ خیز دنیا میں کردار ادا کرنے کی عکاسی ہوتی ہے۔
سعودی عرب نے سال 2016 کے اوائل میں ایک شیعہ عالم کو سعودی عرب میں پھانسی دیئے جانے کے بعد ایران میں سعودی سفارتی مشن پر حملوں کے خلاف احتجاج کے طور پر ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لیے تھے۔ عراق اور عمان نے دونوں حریف ملکوں کو تعلقات کی بہتری میں مدد فراہم کرنے کے لئے 2021 اور 2022 کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کی تھی۔
سعودی عرب اور ایران دونوں نے بیجنگ میں اپنی تازہ ترین ملاقات کے بعد مذاکرات کی کامیابی میں تعاون کرنے پر عراق اور عمان کو سراہا اورشکریہ ادا کیا اورچینی رہنماؤں اورچینی حکومت کی میزبانی، حمایت اور کردار کی تعریف کی اور ان کا شکریہ ادا کیا۔
شنگھائی انٹرنیشنل اسٹڈیز یونیورسٹی کے پروفیسر ڈنگ لانگ نے کہا کہ یہ معاہدہ مشرق وسطیٰ اور دنیا کے لیے بہت حیرانی کا باعث بنا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں پرانے حریفوں نے برسوں کی عداوت کے بعد امن قائم کیا بلکہ اس لیے بھی کہ بات چیت ہزاروں کلومیٹر دوربیجنگ میں ہوئی۔ یہ ایک سفارتی معجزہ تھا جس کی زیادہ تر لوگوں کو توقع نہیں تھی ۔
مصر، متحدہ عرب امارات (یو اے ای)، اردن اور عراق سمیت مشرق وسطیٰ کے دیگر ملکوں نے بیجنگ معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے ۔
اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن ڈوجیرک نے معاہدے کو سراہا اور اس عمل میں چین کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان اچھے ہمسایوں کے تعلقات خلیج کے خطے کے استحکام کے لیے ضروری ہیں۔
سال2020 کے بعد سے علاقائی طاقتوں کے درمیان تعلقات میں استحکام آیا ہے۔ ایران نے متحدہ عرب امارات اور کویت کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کیے ہیں جس سے سعودی عرب کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے سازگار ماحول پیدا ہوا ہے۔
ڈنگ نے کہا کہ سعودی عرب اور ایران تعلقات فرقہ واریت، نسل پسندی اور جغرافیائی سیاسی عوامل کے پیش نظر دنیا میں دوطرفہ تعلقات کی سب سے پیچیدہ مثالوں میں سے ایک بن چکے ہیں۔ چین کی ثالثی نے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو کم کرنے کے عمل کو عروج پر پہنچاتے ہوئے تعلقات کو معمول پر لانے میں مدد فراہم کی ہے ۔