واشنگٹن (شِنہوا)امریکی ریاست کنیکٹیکٹ کی یالے یونیورسٹی کے ایک اسکالر نے کہا ہےکہ چین کے ساتھ تجارتی جنگ "امریکہ کے لئے نقصان دہ رہی ہے کیونکہ یہ ایک سیاسی مقاصداور روکاوٹوں پر مبنی پالیسی ہے جو تجارتی خسارہ ختم کرنے کا امریکی ہدف کبھی حاصل نہیں کرسکتی۔
شِنہوا کے ساتھ ایک انٹرویو میں یالے لاء اسکول کے پال سائی چائنہ سینٹر کے سینئر فیلو اسٹیفن روچ نے کہا کہ وہ عرصہ دراز سے اس رائے پر تنقید کررہے ہیں کہ امریکہ یا کوئی بھی ملک کثیر الجہتی دنیا میں (تجارتی جنگ سے) دوطرفہ تجارتی خسارے کا مسئلہ حل نہیں کرسکتا۔
روچ نے کہا کہ واشنگٹن کے نہ صرف چین بلکہ دیگر ممالک کے ساتھ تجارتی خسارے کی بڑی وجہ امریکی تجارتی شراکت داروں کا رویہ نہیں بلکہ مقامی بچت میں مسلسل کمی ہے۔
روچ کے مطابق مقامی بچتوں کی کمی اس حد تک "کافی واضح" ہے کہ "گزشتہ برس ہماری خالص مقامی بچت کی شرح منفی تھی۔ روچ 2010 کی دہائی میں یلے میں شامل ہونےسے قبل چیئرمین مورگن اسٹینلے ایشیا تھے۔
انہوں نے کہا کہ مقامی بچت میں کمی ، سرمایہ کاری اور ترقی کے خواہاں ہونے کے سبب ہم بیرون ملک سے اضافی بچت درآمد کرتے اور سرمائے کو راغب کرنے کے لئے بڑے کثیر الجہتی تجارتی خسارے کو برداشت کرتے ہیں۔
چینی مصنوعات پر ٹیکس نافذ کرنے سے متعلق انہوں نے کہا کہ کیا ہم نے وہ حاصل کیا جس کی ہم توقع کررہے تھے۔ یہ ہمارے وسیع تجارتی خسارے میں کمی کےلئے تھے؟ یقینا ایسا نہیں ہوا۔یہ ٹیکس سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں لاگو کئے تھے جس کا بڑا حصہ ان کے بعد آنے والے صدر جو بائیڈن نے جاری رکھا۔
سرمایہ کار سے اسکالر بننے والے روچ نے کہا کہ چین کے ساتھ تجارتی جنگ کا آغاز کرنا بدقسمتی سے ہماری چین مخالف دو طرفہ حکمت عملی کی سیاسی جہت کی عکاسی ہے جسے واشنگٹن نے مکمل طور پر اپنا لیا ہے لیکن اس نے وہ وسیع اقتصادی مقاصد حاصل نہیں کیے جن کا ہمارے سیاستدانوں نے عوام سے وعدہ کیا تھا۔
روچ نے کہا کہ محصولات کے باوجود، چین "امریکہ کو غیر ملکی سپلائی کا ایک بڑا ذریعہ" ہونے کے ساتھ ساتھ "امریکی برآمدات کی ترقی کے لیے ایک اہم منزل" بنا ہوا ہے۔
انہوں نےمزید کہا کہ درآمدی مصنوعات کے ہمارے سب سے بڑے ذریعہ پر محصولات اور دیگر قسم کی پابندیاں لگا نا امریکی کمپنیوں اور امریکی صارفین پر حملوں کے مترادف ہے جبکہ حقیقی معنوں میں یہ تجارتی جنگ خود امریکہ کے لیے ہی منفی ثابت ہوئی ہے۔