بیجنگ (شِںہوا) چینی صدر شی جن پھنگ اور ان کے امریکی ہم منصب جو بائیڈن سان فرانسسکو میں ایشیا بحرالکاہل اقتصادی تعاون (ایپک) کے اقتصادی رہنماؤں کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔ دونوں عالمی رہنماؤں کی چین ۔ امریکہ بڑھتی کشیدگی کے پس منظر میں یہ ملاقات ہورہی ہے۔
ایک مضمون کے مطابق دونوں عالمی رہنماؤں کی اس روبرو ملاقات سے تناؤ کم ہوگا جس نے تہذیبوں کے درمیان امن اور اتحاد میں خلل ڈالا ہے۔
مزید یہ کہ اجلاس عالمی برادری کو متاثر کرنے والے اہم امور پر چین اور امریکہ کے ایک دوسرے کے ساتھ اختلافات کے پروپیگنڈے کے بیانیے کو کم کرے گا۔
سوال یہ ہے کہ چین اور امریکہ کو تعاون کی ضرورت کیوں ہے؟
امریکہ اور چین جی ڈی پی کے اعتبار سے دنیا کی پہلی اور دوسری سب سے بڑی معیشتیں ہیں، اس کے ساتھ جی ڈی پی کی بنیاد پر قوت خرید میں مساوی درجہ رکھتی ہیں۔
عالمی بینک کے مطابق 2022 میں امریکہ کا جی ڈی پی 255 کھرب امریکی ڈالر سے کچھ کم جبکہ چین کا جی ڈی پی تقریباً 179 کھرب امریکی ڈالر تھا۔
ان کا تعاون عالمی اشیائے صرف اور عالمی برادری میں امن و ترقی خاص کر معاشی بحالی کے دور میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔
دوسراصدر شی سے سیکھتے ہوئے چین اور امریکہ دونوں کے پاس اثر و رسوخ کی طاقت اور صلاحیت ہے کہ وہ "ماحولیاتی تہذیب" کے تصور کو تبدیلی کے نمونے کی مثال کے طور پر مقبول بناکر سبز اور کم کاربن والی معیشتوں کی راہ پر کام کرسکیں ۔
ایسا کرتے ہوئے چین-امریکہ تعاون موسمیاتی تبدیلی کے مسائل سے نمٹنے میں محاذ آرائی پر مبنی بین الاقوامی نظام کو از سر نو ترتیب دے گا اور ایک نئے عالمی نظام کی تشکیل نو کرے گا جس کی جڑیں انسانیت کا نظریہ آگے بڑھانے میں ہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ عالمی برادری کو اہم چیلنجز درپیش ہیں جہاں سائنس و ٹیکنالوجی اہم حل پیش کرسکتی ہے۔
شنگھائی اعلامیہ 1972 کے بعد تقریباً 100 امریکی سائنس دانوں اور اسکالرز نے چین کا سفر کیا اور عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد چینی سائنسدانوں کا پہلا گروپ امریکہ گیا تھا۔
چین اور امریکہ کے درمیان سائنس و ٹیکنالوجی شعبوں میں تعاون ، زمین اور ماحولیاتی سائنس، طبیعیات اور کیمسٹری میں بنیادی تحقیق، ارضیات اور توانائی بارے شعبوں میں شراکت داری میں رہنمائی کی ضرورت ہے تاکہ چین ۔ امریکہ تعاون کو فروغ دیا جا سکے۔