کابل (شِنہوا) افغان نوجوان محمد اسمعیل ادیب نے کہا ہے کہ چین خوشحال معیشت کے ساتھ بھرپور ثقافت کا حامل ہے، اس لئے چینی زبان بہت اہم دلچسپی کی حامل ہے۔
جامعہ کابل کے شعبہ چینی زبان و ادب کے جونیئر طالب علم محمد اسمعیل ادیب نے شِںہوا سے گفتگو میں کہا کہ "میں نے چینی زبان سیکھنے اور افغانستان اور چین کے درمیان رابطے کا پل بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ چینی زبان سیکھنے سے انہیں جامعہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد باآسانی ملازمت مل سکتی ہے۔
افغانستان، کابل کی جامعہ کابل میں کنفیو شس انسٹی ٹیوٹ کا بیرونی منظر۔ (شِنہوا)
انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس جامعہ کے اس ڈیپارٹمنٹ سے فارغ التحصیل ہو نے والوں کو پہلے ہی ملازمت مل چکی ہے، وہ ڈیپارٹمنٹ میں استاد یا پھر مترجم کے طور پر کام کررہے ہیں اور کچھ نے کاروبار شروع کردیا ہے۔
افغانستان کے واحد کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کا افتتاح 2008 میں جامعہ کابل کے چینی زبان و ادب کے ڈیپارٹمنٹ میں کیا گیا تھا۔ جس کے بعد سے انسٹی ٹیوٹ نے دنیا کے سب سے زیادہ آبادی کے حامل ملک کی زبان سیکھنے کا موقع سینکڑوں نوجوانوں کو فراہم کیا۔
ڈیپا رٹمنٹ کے ڈائریکٹر حامد غلامی نے کہا کہ جامعہ کے ڈیپا رٹمنٹ میں اس وقت 90 سے زائد طالب علم چینی زبان سیکھ رہے ہیں جن میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں۔
غلامی 2014 سے اس ڈیپارٹمنٹ میں چینی زبان کے استاد بھی ہیں، انہوں نے کہا کہ چینی زبان سیکھنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
افغانستان، کابل کی جامعہ کابل میں ثقافتی کلاس میں شریک طلبا روایتی چینی خطاطی سیکھ رہے ہیں۔(شِنہوا)
غلامی نے شِنہوا کو بتایا کہ اگرچہ یہ ڈیپا رٹمنٹ افغانستان میں نیا ہے، تاہم کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لینے والے طلبا کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہم نے جامعہ ننگرہار میں چینی زبان کے کورسز شروع کئے ہیں۔