ہیروشیما، جاپان (شِنہوا) گروپ آف سیون (جی 7) سربراہ اجلاس میں امریکہ کی زیر قیادت گروہ نے ایک بار پھر نام نہاد امن و امان کا پرچار کیا جبکہ سیاسی مبصرین نے ان کے جھوٹ مکمل طور پر بے نقاب کر دیئے ہیں۔یہ چھوٹے گروہ کی سیاست اور باقی دنیا پر آمریت کرنے کی چال ہے۔
جی 7 نے اقتصادی لچک اور سلامتی سے متعلق ایک بیان جاری کیا جس میں اقتصادی جبر کے مقابلے کی دھمکی دی گئی ہے جو چین پر انحصار کم کرنے کے بہانے دنیا کو سیمی کنڈکٹرز اور اہم معدنیات جیسے شعبوں میں دو منڈیوں اور دو نظام میں تقسیم کر دے گا۔
فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق چین بارے تعاون کے پیچھے جاپان کی مدد کے ساتھ بائیڈن انتظامیہ کی دو سالوں کی محنت ہے۔امریکہ اپنے اتحادیوں کو چین سے دور کرنے میں کلیدی مجرم ہے جو آزاد تجارت اور مارکیٹ معیشت کے اصولوں کی سنگین خلاف ورزی ہے اور عالمی اقتصادی ترقی کو نقصان پہنچانے کا حامل ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے جنوری میں ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ تجارتی تقسیم کی طویل مدتی لاگت عالمی پیداوار کے 7 فیصد تک پہنچ سکتی ہے اور کچھ ممالک کو اضافی تکنیکی علیحدگی کی صورت میں جی ڈی پی کے 12 فیصد تک نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ہیگاشی نیپون بین الاقوامی یونیورسٹی کے وزیٹنگ پروفیسر کازوتیرو سیونجی نے شِنہوا کو ایک حالیہ انٹرویو میں بتایا کہ امریکہ چینی معیشت کو تجارتی جنگ سمیت متعدد ذرائع سے نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن چین اور امریکہ کے درمیان مسلسل بڑھتی ہوئی تجارت اس بات کی عکاس ہے کہ امریکی کاروبار اور عوام کو چین کے ساتھ تجارت کی ضرورت ہے۔
پروفیسر نے واضح کیا کہ اس بار خطرے سے بچنے کو بہانا بنا کر جی 7 بلاک کو گھسیٹتے ہوئے چین کو دبانے کے لئے امریکہ جان بوجھ کر ظلم و ستم کے اقدام کا حامل ہو رہا ہے اور آزاد تجارت اور لیبر سسٹم آف ورلڈ اکنامک ڈویژن کو نقصان پہنچارہا ہے۔
حالیہ برسوں میں امیر کلب کہلائے جانے والے جی 7 نے قومی طاقت کا ناقابل تلافی زوال دیکھا ہے۔ جاپانی اخبار نی ہون کیزئی شمبون کے مطابق 1980 میں عالمی معیشت میں جی 7 کا حصہ تقریباً 70 فیصد تھا جو اب کم ہو کر تقریباً 40 فیصد رہ گیا ہے جس میں کمی کو روکنے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔
جاپان کے سیاسی مبصرین نے کہا ہے کہ جی 7 نمایاں طور پر کمزور اقتصادی طاقت کے ساتھ دنیا کی نمائندگی کرنے کے قابل نہیں ہے۔
اس کے باوجود یہ حالیہ وقت کے عمومی رجحان کا سامنا کرنے سے قاصر ہے اور سرد جنگ کی ذہنیت سے جڑا ہے۔