بین الاقوامی موسمیاتی ماہرین کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں میں انسانی سرگرمیوں کا کردار خارج از امکان نہیں ہے۔ ورلڈ ویدر آٹریبیوشن گروپ میں کلائمیٹ ماہرین کی بین الاقوامی ٹیم کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صنعتی دور کی انسانی سرگرمیوں نے عالمی حرارات کو 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھایا۔ رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تغیر نے سندھ اور بلوچستانکے لیے 5 روزہ مجموعی بارش کو 50 فیصد تک بڑھایا، موجودہ موسمی حالات میں کسی بھی سال اس طرح کے واقعات ہونے کا ایک فیصد امکان تھا، انسان کے پیدا کردہ گرین ہاس گیسز کے اخراج کے بغیر ایسے واقعات کا امکان کم ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں حالیہ سیلاب سے 1400 افراد جاں بحق اور 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے جبکہ ایک کروڑ 70 لاکھ گھر تباہ ہوئے اور بڑے پیمانے پر فصلوں کو بھی نقصان پہنچا۔ بین الااقوامی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شدید متاثرہ علاقوں میں حالیہ دہائیوں میں 75 فیصد تک زیادہ بارشیں ہوئیں، سندھ اور بلوچستان میں ریکارڈ سطح کی بارشوں کی ممکنہ وجہ انسانی سرگرمیاں ہیں، اس کا مطلب ہے موسمیاتی تغیر نیشدید بارشوں کے امکان کو بڑھا دیا، تاریخی طور پر پاکستان میں مون سون بارشوں میں بڑے تغیرات ہیں۔ موسمیاتی ماہرین نے کہا ہے کہ اس وجہ سے یہ نتیجہ اخذ کرنا ممکن نہیں کہ انسانی کی پیدا کردہ حرارت نے 60 روزہ مجموعی بارش میں کتنا حصہ ڈالا ہے، پاکستان میں وہی ہوا جس کا امکان سالوں سے موسمیاتی پیش گوئیوں میں ظاہر کیا جا رہا تھا، یہ تاریخی ریکارڈ سے بھی مطابقت رکھتا ہے کہ جب سے انسان نے بڑے پیمانے پر زہریلے گیسز کا اخراج شروع کیا خطے میں شدید بارشوں میں ڈرامائی اضافہ ہوا۔ عالمی ادارہ موسمیات کے مطابق دنیا میں موسم سے متعلق سانحات 50 سالوں کے دوران 5 گنا بڑھے، موسمی سانحات میں اوسطا روزانہ 115 اموات ہوتی ہیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی