غیرسرکاری تنظیم سیودا چلڈرن نے خبردارکیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی،تنازعات اور پانی کی قلت کی وجہ سے شام کے شمال اور مشرقی علاقوں میں ہزاروں بچوں کو ہیضے کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے، آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی اس بیماری سے 24 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق شام کی وزارت صحت اور شمال اور مشرقی شام کی خود مختارانتظامیہ کی صحت کمیٹی کے فراہم کردہ اعدادوشمار میں 19 ستمبر تک ہیضے سے 24 افراد کی اموات کی تصدیق کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ملک بھر میں اس بیماری کے کئی ہزار مشتبہ کیس رپورٹ ہوچکے ہیں۔سیودا چلڈرن کے شام میں قائم مقام کنٹری ڈائریکٹر بیٹ روہر نے ایک بیان میں کہا کہ اگر ہم نے ابھی کارروائی نہیں کی تو ہمیں ایک بڑی وبا کا سامنا ہوسکتا ہے۔ایک ایسی وبا جو پہلے ہی شام بھر میں بچوں کی حفاظت کی ضروریات کو بڑھا رہی ہے، ان کی مشکلات میں اضافہ کررہی ہے۔
اس امدادی ادارے کا کہنا ہے کہ اس بیماری کی موجودہ وبا،جو اسہال، قے، پیاس اور بدترین صورتوں میں موت کا سبب بنتی ہے، کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ان آبادیوں میں پھیل رہی ہے، جودریائے فرات کا آلودہ پانی استعمال کرتی ہیں اور اسی سے سیراب ہونے والی غذاں کا استعمال کرتی ہیں۔دریائے فرات میں اس وقت پانی کا بہا تاریخی طور پر کم ترین سطح پر ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شام کو گذشتہ دہائیوں کے مقابلے میں اس وقت بدترین خشک سالی کا سامنا ہے۔اقوام متحدہ نے گذشتہ ہفتے ہی شام میں ہیضے کی وبا کی سنگینی کے بارے میں خبردار کیا تھا اورکہا تھا کہ جنگ سے پانی کے بنیادی ڈھانچے کی وسیع پیمانے پر تباہی کا مطلب ہے کہ ملک کی زیادہ ترآبادی غیرمحفوظ آبی ذرائع پر انحصار کرتی ہے۔شام میں حالیہ برسوں میں ہیضے کی یہ پہلی تصدیق شدہ وبا ہے۔عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مشرقی بحیرہ روم کے خطے کے علاقائی ایمرجنسی ڈائریکٹر رچرڈ برینن نے رائٹرز کو بتایا کہ اس وبا کا جغرافیائی پھیلا تشویش کا باعث ہے۔اس لیے ہمیں تیزی سے آگے بڑھنا ہوگا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی