شام کی نئی حکومت کے ترجمان نے کہا ہے کہ صدر بشار الاسد کی معزولی کے بعد ملک کا آئین اور پارلیمنٹ تین ماہ کی عبوری مدت کے لیے معطل رہے گی۔فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق عبیدہ ارناط نے کہا ہے کہ ایک عدالتی اور انسانی حقوق کی کمیٹی قائم کی جائے گی جو آئین کا جائزہ لے گی اور پھر ترامیم پیش کرے گی۔ موجودہ آئین 2012 کا ہے اور اس میں اسلام کو ریاستی مذہب کے طور پر متعین نہیں کیا گیا ہے۔ ایک انٹرویو میں شام کی نئی حکومت کے ترجمان نے بتایا کہ اقتدار کی منتقلی کے لیے اسد انتظامیہ کے سالویشن گورنمنٹ کے وزرا اور سابق وزرا کے درمیان منگل کو ایک میٹنگ ہو گی۔انہوں نے کہا کہ یہ عبوری دور تین ماہ تک جاری رہے گا۔ اداروں کا تحفظ ہماری ترجیح ہے۔سرکاری ٹیلی ویژن کے ہیڈ کوارٹر، جسے اب نئے عسکریت پسند حکام نے اپنے قبضے میں لے لیا ہے، میں خطاب کرتے ہوئے عبیدہ ارناط نے عہد کیا کہ وہ قانون کی بالادستی قائم کریں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ شامی عوام کے خلاف جرائم کرنے والوں کا قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔مذہبی اور شخصی آزادیوں کے بارے میں ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ہم شام میں مذہبی اور ثقافتی تنوع کا احترام کرتے ہیں، ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔اسلام پسند عسکریت پسند گروپ حیات تحریر الشام کی قیادت میں عسکریت پسندوں نے اتوار کو دارالحکومت دمشق پر قبضہ کر لیا تھا اور صدر بشار الاسد ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔شام میں عسکریت پسندوں کے قبضے کے بعد اقتدار اور ملک چھوڑنے والے صدر بشار الاسد اور ان کا خاندان اس وقت روس کے دارالحکومت ماسکو میں ہیں اور روس نے انہیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دی ہے۔
کریڈٹ : انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی