i بین اقوامی

صدر کی کال پر 10 ہزار شہری یوکرین کے خلاف لڑنے کو پہنچ گئے ہیں، روسی فوجتازترین

September 23, 2022

روس کی فوج نے کہا ہے کہ صدر ولادیمیر پوتن کے ریزرو فوجی اہلکاروں کو طلب کرنے کے چوبیس گھنٹوں بعد کم از کم دس ہزار رضاکار یوکرین کے خلاف لڑنے کے لیے متعلقہ مراکز میں پہنچ گئے ہیں۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق فوج کے ترجمان ولادیمیر سملیانسکی نے روس کی مقامی نیوز ایجنسی انٹر فیکس کو بتایا کہ صدر کے اعلان کے پہلے دن ہی تقریبا دس ہزار شہری اپنی مرضی سے بھرتی کے مراکز پہنچے ہیں جبکہ انہیں ابھی ڈیوٹی پر آنے کے احکامات بھی جاری نہیں کیے گئے تھے۔ترجمان نے کہا کہ فوج نے کال سنٹر قائم کیا ہوا ہے جہاں وہ اضافی فوجیوں کی تعیناتی کے حوالے سے شہریوں اور اداروں کے سوالوں کے جواب دے رہے ہیں۔صدر ولادیمیر پوٹن کے اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر ویڈیوز چل رہی ہے جن میں دکھایا گیا ہے کہ ملک بھر سے سینکڑوں کی تعداد میں روسی شہری صدر کی کال پر مثبت ردعمل دیتے ہوئے ریزرو فورس میں شامل ہو رہے ہیں۔سائبیریا کے شہر یاکوٹیا سے آنے والی ویڈیو میں مردوں کو دکھایا گیا ہے جس میں وہ بس پر سوار ہونے سے پہلے اپنی فیملیز سے مل رہے ہیں جب کچھ کی آنکھوں میں آنسو ہیںروسی ٹیلی ویژن چینل ماش پر بھی ایک ویڈیو دکھائی گئی ہے جس میں طویل قطار میں کھڑے شہری جہاز پر چڑھنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔

روسی وزیر دفاع نے سرکاری طور پر اس قسم کی کوئی ویڈیوز نہیں شیئر کیں اور نہ ہی کوئی معلومات دی ہیں کہ کتنے کو شہریوں کو طلبی کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔خیال رہے کہ صدر ولادیمیر پوتن نے بدھ کو یوکرین میں لڑنے کے لیے تین لاکھ فوجی بھیجنے کا کہا تھا۔انہوں نے کہا تھا کہ اگر مغرب نے تنازع پر اپنی جوہری بلیک میلنگ دکھائی تو ماسکو اپنے تمام وسیع ہتھیاروں کی طاقت سے جواب دے گا۔ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب میں پوتن نے کہا کہ اگر ہمارے ملک کی علاقائی سالمیت کو خطرہ لاحق ہوا تو ہم اپنے لوگوں کی حفاظت کے لیے تمام دستیاب ذرائع استعمال کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ روس کے پاس جواب دینے کے لیے بہت سے ہتھیار موجود ہیں۔روسی صدر نے یوکرین کے ماسکو کے زیرِ قبضہ علاقوں میں بھی اچانک ریفرنڈم کروانے کا بھی اعلان کیا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور چین نے صدر ولادیمیر پوتن کے یوکرین میں اضافی فوج تعینات کرنے اور زیرِ قبضہ علاقوں میں اچانک ریفرنڈم کے فیصلے کی شدید مذمت کی ہے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی