i بین اقوامی

روسی صد رکا اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو کریملن میں واقع نیوکلیئرپاور پلانٹ کا دورہ کرنے کی اجازتتازترین

August 20, 2022

روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے اقوام متحدہ کے حکام کو کریملن میں واقع زاپوریزہیا نیوکلیئر پاور پلانٹ کا دورہ کرنے اور معائنہ کرنے کی اجازت دے دی ہے ۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق، ماسکو کی طرف سے یہ اعلان صدر پوٹن اور فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے درمیان ہونے والی ٹیلی فون کال کے بعد کیا گیا۔ یہ اعلان اس وقت ہوا جب یوکرین کی طرف سے دعوے کیا جا رہا تھا کہ پلانٹ کے قریب شدید لڑائی جاری ہے ، مبینہ طور پر روسی گولہ باری سے چار شہری زخمی ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ، امریکہ نے یوکرین جنگ جاری ر کھنے کے لیے مزید اسلحہ اور گولہ بارود د ینے کا وعدہ کیا ہے۔ کریملن نے کہا ہے کہ فرانسیسی اور روسی صدور کے درمیان ٹیلی فون کال بات چیت کے دوران پوٹن نے اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کو زاپوریزہیا نیو کلیئر پاورپلانٹ سائٹ تک رسائی کے لیے ضروری مددفراہم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ جوہری پلانٹ مارچ سے روسی قبضے میں ہے لیکن یوکرین کے تکنیکی ماہرین اب بھی اسے روسی ہدایت کے مطابق چلا رہے ہیں۔کریملن نے کہا کہ دونوں رہنماں نے زمین پر صورتحال کے جائزے کے لیے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ماہرین کو پلانٹ میں بھیجنے کے لیے اتفاق کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے پوٹن کے بیان کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا کہ وہ خود پلانٹ کا دورہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔رافیل گروسی نے کہا ہے کہ اس انتہائی غیر مستحکم اور نازک صورتحال میںیہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ کوئی نیا اقدام نہ کیا جائے جس سے دنیا کے سب سے بڑے جوہری پاور پلانٹس میں سے ایک کی تحفظ اور سلامتی کو مزید خطرہ لاحق ہو۔ یوکرین کے صدر زیلنسکی نے اپنے خطاب میں معائنہ کے امکان کا خیرمقدم کیا،انہوں نے کہا کہ اگر جوہری تابکاری اثرات کے ساتھ روسی بلیک میلنگ جاری رہی تو یہ موسم گرما مختلف یورپی ممالک کے لیے سب سے المناک موسم ہو سکتا ہے۔ کیف کا کہنا ہے کہ روس نے جوہر ی پاور پلائٹ کمپلیکس کو ایک فوجی چھاونی میں تبدیل کر دیا جس میں فوجی سازوسامان اورہتھیار سٹور کئے ہوئے ہیں اور تقریبا 500 فوجیوں کو تعینات کیا گیا ہے جو اس جگہ کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں تاکہ دریائے ڈینیپر کے پار واقع شہروں پر حملہ کیا جا سکے۔

کریڈٹ:
انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی