روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ وہ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیساتھ کسی بھی وقت ملاقات اور یوکرین جنگ پر سمجھوتے کیلئے تیار ہیں۔غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق سال کے آخر میں اپنی سالانہ نیوز کانفرنس سے خطاب کے دوران ممکنہ امن معاہدے کے بارے میں ٹرمپ کے اقدامات کے بارے میں پوچھے جانے پر، پیوٹن نے کہا کہ وہ آنے والے ریپبلکن کے ساتھ ملاقات کا خیرمقدم کریں گے۔روسی صدر کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں معلوم کہ میں اس سے کب ملنے جا رہا ہوں۔ وہ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ رہے ہیں۔ میں نے اس سے چار سال سے زائد عرصے سے بات نہیں کی ہے۔ میں اس کے لیے تیار ہوں، کسی بھی وقت۔ پیوٹن نے کہا کہ اگر ہماری کبھی منتخب صدر ٹرمپ سے ملاقات ہوتی ہے تو مجھے یقین ہے کہ ہمارے پاس بات کرنے کے لیے بہت کچھ ہو گا، انہوں نے مزید کہا کہ روس مذاکرات اور سمجھوتے کے لیے تیار ہے۔ روسی صدر سے جب پوچھا گیا کہ وہ نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کیا پیشکش کر سکتے ہیں، تو پیوٹن نے اس بات کی تردید کی کہ روس کمزور پوزیشن میں تھا، بجائے اس کے کہ اس کی بڑھتی ہوئی طاقت پر زور دیا۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا کہنا ہے کہ ان کا ملک 2022 میں یوکرین میں فوج بھیجنے کے بعد سے مضبوط ہو گیا ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے مزید کہا کہ ان کا ملک یوکرین کے تنازع کے خاتمے کے لیے مذاکرات اور سمجھوتوں کے لیے تیار ہے۔ ان کا یہ بھی دعوی ہے کہ روسی افواج آگے بڑھ رہی ہے اور یوکرین میں اپنے اہم مقاصد کے حصول کے قریب پہنچ رہی ہیں۔ شام کے حوا لے سے روسی صدر نے کہا ہے کہ شام میں روس کو شکست نہیں ہوئی اور ہم نے وہاں اپنے مقاصد حاصل کرلیے ہیں۔ پیوٹن نے پہلی بار بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد شام کی صورتحال پر گفتگو کی اور اس دعوے کو مسترد کیا کہ شام میں روس کو شکست ہوئی۔ پیوٹن کا کہنا تھا کہ آپ شام میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے روس کی شکست کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے اور ہم نے اپنے مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔صدر پیوٹن کا کہنا تھا کہ روس نے الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد 4000 ایرانی فائٹرز کو بھی شام سے نکالا۔انہوں نے کہ ہم ان تمام گروپوں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھتے ہیں جو شام کی صورتحال کو کنٹرول کرتے ہیں۔بشارالاسد سے ملاقات کے بارے بات کرتے ہوئے پیوٹن نے کہا کہ وہ ابھی تک ان سے نہیں ملے لیکن ان سے ضرور بات کریں گے اور ماسکو میں ان سے ملنے کا منصوبہ بھی بنایا ہے۔
کریڈٹ : انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی