i بین اقوامی

یوکرین کا پہلی بار برطانیہ کے سٹارم شیڈو میزائل سے روس پر حملہتازترین

November 21, 2024

یوکرین نے پہلی بار برطانیہ کے سٹارم شیڈو میزائل سے روس پر حملہ کیا ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق یوکرین نے پہلی مرتبہ روس کے اندر فوجی اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے برطانیہ کے تیار کردہ سٹارم شیڈو میزائل کا استعمال کیا ہے۔رپورٹ کے مطابق امریکی صدر بائیڈن یوکرین کو امریکی میزائلوں سے بھی روس پر حملے کی اجازت دے چکے ہیں۔واضح رہے کہ چند روز قبل امریکی اجازت کے بعد یوکرین نے روس کی فوجی تنصیب پر 6 امریکی بیلسٹک میزائل داغے تھے۔یوکرین کا کہنا ہے کہ روس کی جانب سے فضائی حملوں کو مات دینے کے لیے اسے سٹارم شیڈو سمیت زیادہ فاصلے پر مار کرنے والے میزائلوں کا استعمال کرنے کی ضرورت ہے، ان میں امریکی اٹیکمز بھی شامل ہیں جو 300 کلومیٹر تک حملہ کر سکتے ہیں۔ذرائع کے مطابق بریانسک پر حملے میں امریکی ساختہ میزائل استعمال کیے گئے، اس موقع پر روسی فضائی دفاعی نظام نے 5 میزائل مار گرائے تھے، جبکہ چھٹے میزائل کو نقصان پہنچا جس کا ملبہ فوجی تنصیب کے احاطے میں گرنے سے آگ لگی، جس پر قابو پالیا گیا تاہم میزائل حملوں سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔برطانوی میڈیا رپورٹ کے مطابق سٹارم شیڈو ایک اینگلو فرانسیسی کروز میزائل ہے جو زیادہ سے زیادہ تقریبا 250 کلومیٹر تک کا فاصلہ طے کر سکتا ہے، فرانسیسی اسے سکیلپ کہتے ہیں ، اسے ہوائی جہاز سے لانچ کیا جاتا ہے۔

یہ تقریبا آواز کی رفتار پر اپنے ہدف تک پرواز کرتا ہے اور پھر نیچے گرنے سے پہلے اپنے وار ہیڈ (میزائل کا وہ حصہ جس میں دھماکہ خیز مواد موجود ہوتا ہے) کو دھماکے سے اڑا دیتا ہے۔سٹارم شیڈو کو مضبوط بنکرز اور گولہ بارود کے گوداموں میں گھسنے کے لیے ایک مثالی ہتھیار سمجھا جاتا ہے، جیسے وہ میزائل جو روس نے یوکرین کے خلاف اپنی جنگ میں استعمال کیے۔ایک سٹارم شیڈو میزائل کی لاگت تقریبا دس لاکھ امریکی ڈالر ہے ، اس لیے ان کو استعمال کرنے سے پہلے سستے ڈرونز استعمال کیے جاتے ہیں، جن سے دشمن کا فضائی دفاع کمزور بنایا جا سکے اور ڈرونز کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کا زیادہ سے زیادہ گولہ بارود استعمال ہو جائے بالکل اسی طرح روس بھی یوکرین کے ساتھ کرتا ہے۔ماضی میں سٹارم شیڈو کو مثر انداز میں استعمال کیا گیا ہے، اس میزائل کے ذریعے کرائیمیا میں روس کے بحیرہ اسود میں واقع نیول ہیڈکوارٹر کو نشانہ بنایا گیا تھا جس کے بعد کرائیمیا روس کی بحریہ کے لیے خطرناک قرار دے دیا گیا تھا۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی