اقوام متحدہ کے ایک سینئر اہلکار نے انکشاف کیا ہے کہ حوثی گروپ کے ساتھ اقوام متحدہ کے تعلقات میں واضح بہتری آئی ہے۔ یہ اکشاف ایک ایسے وقت میں ہوا جب ایرانی حمایت یافتہ گروپ نے گذشتہ جون سے صنعا میں عالمی تنظیم کے تقریبا 15 ملازمین کو گرفتار کر رکھا ہے۔ عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق یمن میں اقوام متحدہ کے ریذیڈنٹ کوآرڈینیٹر جولین ہارنیس نے کہا کہ گروپ کے ساتھ تعلقات میں اچھی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ حوثیوں نے امدادی عملے کو پہلے کے مقابلے میں جلد سفری ویزے فراہم کرنے اور ان میں سے کچھ کو بے دخل کرنے سے روکنے کے معاہدے کیے ہیں۔لندن میں رائل انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کی جانب سے منعقدہ ایک تقریب کے دوران صنعا میں اقوام متحدہ کے اہلکار جولین ہارنیس نے گروپ کے زیر کنٹرول علاقوں سے امداد منقطع کرنے کے مطالبات کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کارروائی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے اہلکار نے زور دیا کہ شمالی یمن میں اقوام متحدہ کی سرگرمیوں کو روکنے کے مطالبات ناقابل قبول ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ فریقین کے زیر کنٹرول یمنی باشندوں میں سے کسی نے بھی اس کا انتخاب اپنی مرضی سے نہیں کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے 65 فیصد سے زائد ملازمین ملک کے شمال میں گروپ کے زیر کنٹرول علاقوں میں ملازمت کرتے ہیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ 2024 کے وسط میں حوثیوں کی جانب سے شروع کی گئی گرفتاری مہم صرف امدادی اور انسانی حقوق کے کارکنوں اور یمن میں سفارتی مشنز کے ملازمین تک محدود نہیں تھی بلکہ اس میں کئی دوسرے افراد بھی شامل تھے۔ ہارنیس نے حوثی گروپ کی خلاف ورزیوں کے بارے میں اقوام متحدہ کے خاموش رہنے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ نے امدادی کارکنان کی گرفتاری پر آواز اٹھاتے ہوئے پچاس سے زائد بیانات دیے جب کہ وہ صنعا میں حکام کے ساتھ براہ راست بات چیت میں مصروف ہیں تاکہ قیدیوں کی رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا سکے۔انہوں نے کہا کہ جو چیز حوثیوں کو سب سے زیادہ حساس بناتی ہے وہ بین الاقوامی امداد سے فائدہ اٹھانے والوں کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے یا ڈیٹا تک رسائی سے متعلق کوئی بھی کام ہے، جس میں بین الاقوامی ریلیف کی آزادی سے متعلق معلومات اور ان تک رسائی کا حوالہ دیا جاتا ہے جو حقیقت میں اس کے مستحق ہیں۔ہارنیس نے اعتراف کیا کہ شمالی یمن میں اقوام متحدہ کے بجٹ کا 10 فیصد سے بھی کم امداد کے مقابلے ترقیاتی منصوبوں سے متعلق ہے۔ امداد سے ترقی کی طرف منتقلی کا انحصار یمن کی حکومت پر ہے اور اس پر بات کرنا مشکل ہے۔
کریڈٹ : انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی