انگلینڈ اور ویلز میں بچوں کی شادی پر پابندی کا ایک نیا قانون نافذ کردیا گیا جسے بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں نے اپنی فتح قرار دیا ہے۔ میرج اینڈ سول پارٹنرشپ قانون (شادی کی کم از کم عمر)2022کے مطابق بچوں کو شادی کی طرف دھکیلنا غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے۔ اس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بچوں کی کم عمری میں شادی کرانے والوں کو سات سال تک قید ہوسکتی ہے۔ اس قانون کے لیے گزشتہ سال اپریل میں شاہی منظوری حاصل کرلی گئی تھی،اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے ایرانی اور کرد خواتین کے حقوق کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیانا نے بتایا کہ یہ قانون بچوں کے حقوق کے شعبے میں ایک بڑے قدم کو ظاہر کر رہا ہے۔ ڈیانا نے کہا ہم نے اس تبدیلی کے لیے ایک دہائی تک مہم چلائی ہے۔ کیونکہ شادی کے بعد بچے کو عمر بھر کا نقصان نہیں اٹھانا چاہیے،انہوں نے کہا میں ہر ایک سے قانون میں اس اہم تبدیلی کے بارے میں آگاہی پھیلانے کی بات کرتی ہوں۔ جو لوگ بھی جانتے ہیں کہ کسی بچے کو شادی کے خطرے کا سامنا ہے وہ اس بچے کی مدد کریں۔ غیرت سے متعلق بدسلوکی میں جبری شادی بھی شامل ہے۔
جب لڑکیوں یا خواتین کو اجنبیوں سے شادی کے لیے بیرون ملک لے جایا جاتا ہے،برطانویمیڈیا نے اس سے قبل بھی انتباہ کیا تھا کہ ہر سال سینکڑوں برطانوی لڑکیوں کی شادی کی جا رہی ہے کیونکہ برطانیہ کا قانون ان کو مناسب طریقے سے تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ خیراتی اداروں نے کہا ہے کہ کم عمری کی شادی کو اکثر ترقی پذیر دنیا کے لیے ایک مسئلہ سمجھا جاتا ہے لیکن یہ پوری دنیا میں ہو رہا ہے۔ برطانیہ میں بھی یہ سب اندرون خانہ ہو رہا ہے تاہم صاف نظر نہیں آتا،اس قانون میں ترمیم سے قبل برطانیہ میں سرکاری طور پر رجسٹرڈ کیے بغیر کسی بھی عمر میں مذہبی شادیوں کی قانونی اجازت تھی، اس لیے بعض اوقات 10سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی بھی شادی کر دی جاتی تھی، تاہم کم عمری میں کی گئی شادیوں کی تعداد کا جاننا مشکل تھا کیونکہ یہ شادیاں رجسٹرڈ نہیں ہوتی تھیں،دوسری طرف 16اور 17سال کی عمر کے بچوں کو صرف والدین کی رضامندی سے شادی کرنے کی اجازت تھی۔ بچوں کے حقوق کے کارکنوں نے دلیل دی تھی کہ یہ قانون بچوں کی شادی کے معاملات میں والدین کے جبر کے مترادف ہو سکتا ہے،نائب وزیر اعظم اور خارجہ سیکرٹری برائے انصاف ڈومینک رااب نے کہا ہے کہ یہ بل ہمارے معاشرے میں جبری شادی کے خلاف کریک ڈائون کرتے ہوئے کمزور نوجوانوں کو بہتر طور پر تحفظ فراہم کرے گا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی