بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر میں کالے قانون کے تحت خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد بی جے پی کے حق میں کی گئی متنازع حلقہ بندیوں پر مسلمانوں اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے دائر کی گئی درخواست کو مسترد کردیا،بھارتی میڈیا کے مطابق درخواست گزاروں حاجی عبدالغنی خان اور محمد ایوب مٹو نے موقف اختیار کیا کہ 2026سے پہلے ملک میں کہیں بھی ری ڈرائنگ یا حلقہ بندی پر پابندی ہے لیکن اس کے باوجود کمیشن نے نہ صرف حلقہ بندیاں کیں بلکہ اس پورے عمل میں بد نیتی اور غیر منصفانہ طریقے سے مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو فائدہ پہنچایا تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرسکے،یاد رہے کہ اگست 2019کو مودی سرکار نے ایک کالے قانون کے تحت کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے دو وفاقی اکائیوں میں تقسیم کیا تھا اور پھر جموں و کشمیر میں اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں کو دوبارہ ترتیب دینے کے لے حد بندی کمیشن بنایا تھا،اس کمیشن نے جموں کے لیے 43اور کشمیر کی اسمبلی کے لیے 47نشستیں یعنی مجموعی طور پر 114نشستیں مختص کیں جن میں سے 24ریزرو نشستیں آزاد کشمیر کے لیے تفویض کردیں جو کہ پاکستان کا حصہ ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی دیگر 90حلقوں پر انتخاب ووٹنگ سے ہوگا،حد بندی کمیشن نے یہ متنازع سفارش بھی کی کہ پاکستان کے علاقے آزاد کشمیر کے مہاجرین اور دو تارکین وطن کو بھی اسمبلی میں بطور ارکان نامزد کیا جائے،سپریم کورٹ میں درخواست گزاروں نے اس عمل کو سراسر غیر آئینی قرار دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ تھا کہ آرٹیکل 370کی منسوخی کے باوجود ملک بھر میں حلقہ بندیاں 1971کی مردم شماری کی بنیاد پر طے کی گئی تھیں جس کے تحت 2026 تک مردم شماری تک کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی،تاہم حکومتی وکیل نے کہا کہ 2019میں کی گئی قانون سازی کے تحت جموں و کشمیر کی ریاستی اسمبلیوں اور وفاقی پارلیمنٹ کی حد بندی کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تھا اس لیے یہ اقدام بالکل درست ہے،جس پر سپریم کورٹ نے حکومتی موقف کو درست قرار دیتے ہوئے جموں و کشمیر میں حلقہ بندیوں کے خلاف مسلمانوں اور اپوزیشن کی درخواست کو مسترد کردیا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی