i بین اقوامی

بھارتی سپریم کورٹ نے بلڈوزر انصاف پر پابندی عائد کردیتازترین

November 16, 2024

بھارتی سپریم کورٹ نے 13 نومبر کو بلڈوزر سے لوگوں کی املاک کی مسماری کی سرگرمیوں یہ کہہ کر پابندی عائد کر دی کہ چاہے کوئی مجرم ہو یا ملزم حکومت اس کے گھر کو غیر قانونی طور پر گرا نہیں سکتی۔عدالت نے کہا کہ سرکاری اہلکار جج نہیں بن سکتے اور نہ ہی ملزمان کی جائیدادیں گرا سکتے ہیں۔برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب کئی ریاستی حکومتوں نے ملزمان کی جائیدادوں پر بلڈوزر کارروائی کی ہے۔اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے بھارتی سیاست میں بلڈوزر کو زیر بحث لانے کا کام کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے حامی انھیں بلڈوزر بابا کہتے ہیں اور ان کے جلسوں میں بلڈوزر چلا کر ان کا استقبال کرتے ہیں۔ شہری ایجنسیاں برسوں سے غیر قانونی تعمیرات کو گرانے کے لیے بلڈوزر کا استعمال کر رہی ہیں لیکن شروع سے ہی لوگ اس کے سیاست میں استعمال پر سوالات اٹھاتے رہے ہیں۔دو سال قبل اتر پردیش کے جاوید محمد کے دو منزلہ مکان کو بلڈوزر سے گرا دیا گیا تھا۔جاوید پر سال 2022 میں بی جے پی لیڈر نوپور شرما کے خلاف احتجاج منظم کرنے کا الزام تھا۔ اس کے بعد نوپور نے پیغمبر اسلام پر قابل اعتراض تبصرہ کیا تھا۔ان پر احتجاج کے دوران تشدد اور پتھرا کا الزام تھا جس کے بعد مقامی انتظامیہ نے ان کے گھر کو بلڈوز کر دیا۔مقامی ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے کہا کہ ان کا گھر غیر قانونی طور پر بنایا گیا تھا۔

ایسا ہی ایک معاملہ فتح پور میں سماج وادی پارٹی کے لیڈر حاجی رضا کا ہے۔اگست 2024 میں ان کے چار منزلہ شاپنگ کمپلیکس کو بلڈوز کر دیا گیا۔ حاجی رضا پر لوک سبھا انتخابات میں پی ایم مودی کے خلاف مبینہ طور پر قابل اعتراض تبصرہ کرنے کا الزام تھا۔سال 2020 میں جب وکاس دوبے کے گھر کو مسمار کیا گیا تو بلڈوزر کی کارروائی کے لیے ریاستی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ دوبے کے خلاف کئی مجرمانہ مقدمات درج تھے۔اتر پردیش میں بلڈوزر کی کارروائی کے ایسے کئی معاملے ہیں جو وقتا فوقتا کئی دنوں تک خبروں میں رہتے ہیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے فروری 2024 میں ایک رپورٹ جاری کی۔ رپورٹ میں اپریل اور جون 2022 کے درمیان فرقہ وارانہ تشدد اور مظاہروں کے بعد آسام، دہلی، گجرات، مدھیہ پردیش اور اتر پردیش میں 128 جائیدادوں کی مسماری کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ایمنسٹی نے اسے انتقامی کارروائی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ سینیئر سیاسی رہنماں اور سرکاری اہلکاروں کی وجہ سے ہوا۔ ان کے مطابق کم از کم 617 افراد متاثر ہوئے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی