بھارتی سپریم کورٹ نے حکومت کو پاکستان میں جاسوسی کی غرض سے بھیجے جانے شہری کو 10 لاکھ روپے معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے ۔برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ نے حکومت کو ایک ایسے شخص کو 10 لاکھ روپے معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے جن کا دعوی تھا کہ انھیں 1970 کی دہائی میں بھارت کی ایک خفیہ ایجنسی نے جاسوسی کی غرض سے پاکستان بھیجا تھا جہاں وہ پکڑا گیا اوراسے جاسوسی کے الزام میں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی۔عدالت کی جانب سے کسی شخص کو معاوضہ دینے کا حکم یقینا اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے۔بھارتیسپریم کورٹ نے اس کیس کو عجیب حقائق اور حالات پر مبنی قرار دیتے ہوئے محمود انصاری نامی شخص کو معاوضہ ادا کرنے کا حکم تو دیا لیکن اپنے فیصلے میں عدالت نے محمود انصاری کے انڈین جاسوس ہونے اور جاسوسی کی غرض سے پاکستان مشن پر جانے کے دعوے کو قبول کرنے سے گریز کیا۔اس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل (اے ایس جی) وکرم جیت بنرجی نے اِس بات پر زور دیا کہ انڈین حکومت کا انصاری سے کوئی لینا دینا نہیں۔مگر انصاری کے وکیل سمر وجے سنگھ نے کہا ہے کہ اس ضمن میں تمام تر ثبوت جیسا کہ محکمہ ڈاک، سپیشل بیورو آف انٹیلیجینس اور محمود انصاری کے درمیان تمام تر رابطوں کی تفصیلات عدالت کے سامنے پیش کیں جس سے ثابت ہوا کہ انصاری نے سپیشل بیورو آف انٹیلیجینس کے لیے کام کیا اور اِسی بنیاد پر انھیں معاوضہ ادا کرنے کے احکامات جاری ہوئے۔انھوں نے مزید بتایا کہ ان دستاویزات کی بنیاد پر عدالت کا مقف تھا کہ ہاں، وہ جاسوس تھے لیکن یہ حکومتی پالیسی ہے کہ ہم انھیں براہ راست یہ نہیں کہہ سکتے۔ لہذا جس طرح حکومت نے ان کی ذمہ داری لینے سے انکار کیا، ہم بھی ان کے دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔انڈین اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق عدالت نے کہا کہ کوئی بھی حکومت اپنے خصوصی ایجنٹوں کو قبول نہیں کرتی۔ کوئی بھی حکومت ان کی ملکیت نہیں لیتی۔شاید یہ صحیح نہ ہو لیکن یہ اسی طرح کام کرتا ہے۔محمود انصاری نے کوٹا شہر سے فون پر بات کرتے ہوئے اس فیصلے کو انصاف کی جیت قرار دیا تاہم ان کی بیٹی فاطمہ، جو اپنے والد کی پاکستان میں گرفتاری کے وقت فقط 11 ماہ کی تھیں، کا کہنا تھا کہ ان کے والد کو پورا انصاف نہیں ملا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی