بھارتی حکومت نے سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے حلف نامے میں ہم جنس پرستوں کی شادیوں کی مخالفت کرتے ہوئے اسے بھارت کے خاندانی نظام کے نظریے کے منافی قرار دے دیا۔ مرکزی بھارتی حکومت کی جانب سے عدالت میں جمع کروائے گئے حلف نامے میں مقف اختیار کیا گیا ہے کہ بھارت میں خاندان کا نظریہ بائیولوجیکل مرد اور عورت پر مشتمل ہے، جبکہ عدالت کیلئے بھی ممکن نہیں کہ ایسے تمام قوانین اور پالیسیوں کو تبدیل کر دے جس کی جڑیں مذہبی اور سماجی اقدار میں بہت گہری ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ میں ہم جنس پرستوں کی شادیوں سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران حکومت نے موقف اختیار کیا کہ ہم جنس پرستوں کے ایک ساتھ رہنے کو قابل سزا جرم کے کیٹگری سے نکال دیا گیا ہے تاہم یہ بھارت کے شوہر، بیوی اور بچوں پر مشتمل فیملی یونٹ کے نظریے کے مترادف نہیں ہو سکتا۔حکومت نے موقف اختیار کیا کہ مختلف مذاہب میں بھی شادی کے ادارے کو الگ نظریے سے دیکھا جاتا ہے ہندو مذہب کے مطابق مرد اور عورت کا ملن ایک مقدس باہمی فریضہ ہے جسے دونوں کو مل کر پورا کرنا ہے، اسی طرح مسلمانوں میں یہ عورت اور مرد کے درمیان ایک معاہدہ ہے، لیکن ہم جنس پرستی اس سے بالکل مختلف ہے جس وجہ سے اسے یکساں نہیں سمجھا جا سکتا۔واضح رہے کہ عدالت نے گزشتہ برس نومبر میں نوٹس جاری کرتے ہوئے ہم جنس پرستوں کی شادیوں کو متعلقہ کمیونٹی کے لوگوں کا بنیادی حق قرار دیا تھا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی