چینی صدر شی جن پنگ اور انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے ممالک کے درمیان رابطے اور تعاون کو فروغ دینے اور تنازعات کو حل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔برطانوی خبر رساں دارے کے مطابق دونوں رہنماں نے پانچ برسوں میں پہلی باضابطہ بات چیت کے لیے روس میں برکس سربراہی اجلاس کے موقع پر ملاقات کی۔یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دونوں طاقتوں کے درمیان تعلقات بحال ہونا شروع ہو گئے ہیں جو متنازع ہمالیہ سرحد پر ہونے والی جھڑپ کے بعد کشیدہ ہو گئے تھے۔ بھارت اور چین جو دنیا کی دو بڑی معاشی طاقتیں ہیں، فوجی و سفارتی کشیدگی کے باوجود مضبوط تجارتی تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔توقع ہے کہ اس معاہدے سے انڈیا میں چینی سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا۔ بھارت نے کہا ہے کہ دونوں رہنمائوں نے اپنے عہدیداروں کو دو طرفہ تعلقات کے تمام پہلوں کو مستحکم کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔روس کے شہر کازان میں شی جن پنگ اور نریندر مودی کے درمیان ملاقات سے دو روز قبل نئی دہلی سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ اس نے لداخ کے ہمالیائی علاقے میں چار سال سے جاری فوجی تعطل کو ختم کرنے کے لیے بیجنگ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے تاہم، دونوں فریقین نے اس معاہدے کی تفصیلات شیئر نہیں کیں۔
چین کے سرکاری نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی کے مطابق چینی صدر شی جن پنگ نے انڈین وزیراعظم نریندر مودی سے کہا ہے کہ دونوں فریقین کو مواصلات اور تعاون کو مضبوط کرنا چاہیے، تنازعات اور اختلافات کو حل کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کے ترقی کے خوابوں کو پورا کرنا چاہیے۔سرکاری ادارے کے مطابق انڈیا کے وزیراعظم نے دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے اور ترقی دینے کے لیے تجاویز پیش کیں جس پر چینی صدر نے اصولی طور پر اتفاق کیا۔ نریندر مودی نے شی جن پنگ سے کہا کہ تعلقات کے لیے امن، استحکام، باہمی اعتماد اور احترام بہت ضروری ہیں۔ بھارت کے سرکاری نشریاتی ادارے کے مطابق نریندر مودی نے شی جن پنگ کو بتایا کہ ہم گزشتہ چار برسوں میں سامنے آنے والے مسائل پر معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ سرحد پر امن و سکون کو برقرار رکھنا ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ باہمی اعتماد، باہمی احترام اور باہمی حساسیت ہمارے تعلقات کی بنیاد ہونی چاہیے۔یاد رہے کہ مئی 2020 میں وادی گلوان میں انڈین اور چینی فوجیوں کے درمیان جھڑپ کے نتیجے میں 20 انڈین فوجی مارے گئے تھے جبکہ چار چینی فوجی بھی ہلاک ہوئے تھے۔دونوں ممالک نے گذشتہ چار برسوں میں برفانی سرحد کے ساتھ ہزاروں فوجی تعینات کر دئیے تھے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی