i بین اقوامی

امریکی فوج کا یمن میں حوثیوں کے زیر زمین اسلحہ ڈپوں پر حملہتازترین

October 17, 2024

امریکی مسلح افواج نے یمن پر ایک بار پھر بمباری کرتے ہوئے اسلحہ ڈپوں کو نشانہ بنایا ہے۔عرب میڈیا کے مطابق امریکی محکمہ دفاع کا کہنا ہے کہ یہ حملہ یمنی حوثیوں کے زیر زمین اسلحہ ڈپوں کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا، جہاں انہوں نے مختلف قسم کا جدید اسلحہ امریکی فوج اور شہریوں کو نشانہ بننے کے لیے جمع کر رکھا تھا۔یمن پر تازہ بمباری کے حوالے سے پینٹاگون کے سربراہ لائیڈ آسٹن نے کہا ہے بی 2 بمبار طیاروں نے حوثیوں کے خلاف کارروائی جاری رکھتے ہوئے ان کے پانچ زیر زمین اسلحہ ڈپوں کو ہدف بنایا جو مختلف جگہوں پر قائم کیے گئے تھے۔وزیر دفاع نے کہا کہ یہ امریکہ کی ایک منفرد اور مثالی نوعیت کی بمباری تھی، جس کا یمن میں استعمال کیا گیا ، ہمارے دشمنوں کا خیال تھا کہ زیر زمین اسلحے تک ہماری رسائی نہیں ہو سکی گی اور ایسی گہری جگہ پر انتہائی سخت انداز میں محفوظ کیے گئے اسلحے کے ذخیروں کو امریکہ نشانہ نہیں بنا سکے گا، ایسا ہوگیا، ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا کہ کوئی کتنا بھی نیچے جا کر اسلحہ دفن کرتا ہے، ہم پہنچ جاتے ہیں۔ امریکی سینٹ کام نے اس بارے میں یہ بھی کہا ہے کہ ہم اس امر کا جائزہ لے رہے ہیں کہ اس جنگ کے دوران کتنا نقصان پہنچایا گیا ہے، تاہم ابتدائی اطلاعات کے مطابق کسی شہری کا نقصان نہیں ہوا۔امریکی وزیر دفاع نے اس موقع پر حوثیوں کے غیرقانونی اور بیرحمانہ حملوں کے نتیجے میں امریکی اور بین الاقوامی بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کی سخت مذمت کی۔خیال رہے خطے کے سمندروں میں اسرائیلی جنگ سے پیدا شدہ کشیدگی کے پیش نظر اسرائیل کی مدد و حفاظت کے لیے امریکہ نے اپنے جنگی اثاثوں کو متحرک کر رکھا ہے اور ان میں اضافہ بھی کیا جا چکا ہے۔حتی کہ اسرائیل کے اندر تک امریکی فوجی دستے تعینات ہو چکے ہیں جو دفاعی نظام کو ہینڈل کریں گے۔جبکہ اسرائیل سے باہر ہزاروں کی تعداد میں نئے امریکی فوجی بھی تعینات کرنے کا اعلان کیا جا چکا ہے۔یاد رہے کہ حوثیوں کی طرف سے یہ حملے گزشتہ نومبر سے بحیرہ احمر، باب المندب اور خلیج عدن میں جاری ہیں ، جنوری 2024 سے امریکی، برطانوی اور باقی یورپی ملکوں کے اتحادی حوثیوں اور ان کے مراکز کو نشانہ بنا رہے ہیں مگر حوثیوں کی جنگی قوت اور صلاحیت کا خاتمہ ابھی ممکن نہیں ہو سکا۔، حالیہ مہینوں میں حوثیوں نے دوبارہ سے زیادہ مثر کارروائیاں شروع کی ہیں۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی