اقوام متحدہ نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان قحط کے کنارے پر پہنچ گیا ہے اور اس کی ساٹھ لاکھ آبادی انتہائی مفلسی کی حالت میں ہے جبکہ موسم سرما کے دوران بدترین حالات پیدا ہو سکتے ہیں،موسم سرما کے دوران بدترین حالات پیدا ہو سکتے ہیں، موسم سرما گزارنے کے لیے افغانستان کے عوام کو 77کروڑ ڈالر کی ضرورت ہے،افغانستان کی فنڈنگ بحال کی جائے،سات کروڑ سے زائد افغان دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں اگر زراعت اور مویشیوں کو تحفظ نہ دیا گیا تو لاکھوں کی تعداد میں زندگیاں دا ئوپر لگ جائیں گی،عالمی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے شعبہ انسانی امداد کے سربراہ مارٹن گریفتھ نے کہا کہ موسم سرما گزارنے کے لیے افغانستان کے عوام کو 77کروڑ ڈالر کی ضرورت ہے،انہوں نے ڈونرز پر زور دیتے ہوئے کہا افغانستان کی فنڈنگ بحال کی جائے،مارٹن گریفتھ نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ اس وقت افغانستان کو کئی بحرانوں کا سامنا ہے جن میں انسانی، معاشی، موسماتی، بھوک اور غربت جیسے مسائل شامل ہیں،ان کا کہنا تھا کہ تنازعات، غربت کے علاوہ موسمیاتی تبدیلیوں نے طویل عرصہ سے افغانستان کو مشکلات میں ڈالا ہوا ہے تاہم اس وقت سب سے معاملہ اس امداد کا ہے جو ایک سال طالبان کی حکومت آنے کے بعد ممالک نے روک دی تھی،افغانستان کی آدھی سے زیادہ آبادی جو دو کروڑ 40لاکھ سے زیادہ بنتی ہے جو مدد کی شدید ضرورت ہے
جبکہ ایک کروڑ نوے لاکھ خوراک کی کمی کا شکار ہیں،انہوں نے خدشہ ظاہر ہے کہ ان اعدادوشمار میں جلد ہی اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ موسم سرما آنے والا ہے اور اس دوران ایندھن اور خوراک کی اشیا کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو جائے گا جبکہ وہ پہلے سے بھی کافی زیادہ ہیں،ان کا کہنا تھا کہ مشکلات کے باوجود اقوام متحدہ کی ایجنسیز اور شراکت دار این جی اوز نے مثالی کردار ادا کیا ہے اور دو کروڑ 30لاکھ لوگوں تک رسائی حاصل کی،اقوام متحدہ کے شعبہ انسانی امداد کے سربراہ نے کہا کہ اس کے باوجود فوری طور پر تقریبا 62کروڑ ڈالر کی فوری ضرورت ہے کیونکہ موسم سرما شروع ہونے والا ہے اور اس سے قبل گھروں کی مرمت وغیرہ بہت ضروری ہے اور گرم کپڑوں اور کمبلوں سمیت دوسرے سامان کی فراہمی بھی ضروری ہے،اسی طرح ان علاقوں میں ابھی سے خوراک کا سامان پہنچانے کی ضرورت ہے جو موسم سرما کے دوران برفباری کی وجہ سے ملک سے کٹ جاتے ہیں،ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ طالبان کے پاس ملک کے مستقبل کے لیے کوئی بجٹ نہیں ہے اور یہ بات واضح ہے کہ وہاں امدادی اور ترقیاتی کام شروع کرنا ضروری ہے،انہوں نے متنبہ کیا کہ سات کروڑ سے زائد افغان دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں اور اگر زراعت اور مویشیوں کو تحفظ نہ دیا گیا تولاکھوں کی تعداد میں زندگیاں دا ئوپر لگ جائیں گی کیونکہ خوراک پیدا کرنے کی صلاحیت کم ہو جائے گی۔
کریڈٹ:انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی