ایران کے سکیورٹی حکام نے کردستان کے علاقے سنندج میں ٹینک اور جنگی جہاز پہنچا دیے ہیں، جہاں ساڑھے تین ہفتے سے مسلسل احتجاج جاری ہے جبکہ خصوصی فوجی دستوں کی بسیں بھی روانہ کر دی گئی ہیں۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق حجاب درست طور پر نہ اوڑھنے پر گرفتاری کے بعد پولیس حراست میں ہلاک یونے مہسا امینی کا تعلق اسی صوبے سے تھا اور وہاں ہونے والا احتجاج چوتھے ہفتے میں داخل ہو چکا ہے۔ملک بھر میں جاری احتجاج کے جواب میں حکومت کی جانب ظالمانہ کارروائیوں سے اب تک 200 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔احتجاج کی سب سے زیادہ شدت سنندج میں ہے۔اس شہر کے بارے میں انسانی حقوق کے اداروں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکام پر الزام لگایا ہے کہ وہاں گلی محلون پر شیلنگ کی جا رہی ہے۔ناروے کے ہنگا نامی انسانی حقوق کے ادارے کا کہنا ہے کہ جنگی جہاز سنندج کے ایئرپورٹ پر پہنچے ہیں جبکہ بسوں میں سوار خصوصی دستے ابھی راستے میں ہیں۔
انسانی حقوق کے ادرے ایمنسٹی انٹرنینشل نے بتایا ہے کہ اسے سخت تشویش ہے کیونکہ فوجی دستے مظاہرین کے خلاف آتشیں اسلحہ اور آنسو گیس استعمال کر رہے ہیں جبکہ لوگوں کو ان کے گھروں میں بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔سینٹر فار ہیومن رائٹس کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ایسی ہی صورت حال سیستان بلوچستان میں بھی ہے وہاں 30 ستمبر سے اب تک 90 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ڈائریکٹر ہادی غائمی کے مطابق کردستان میں فوجی دستوں کے ہاتھوں سفاکانہ ہلاکتیں اور سیستان بلوچستان میں قتل عام سے عیاں ہے کہ ریاستی تشدد میں مزید اضافہ ہو گا۔بڑی تعداد میں گرفتار کیے جانے والے افراد میں سابق ایرانی صدر اکبر ہاشمی رفسنجانی کی بیٹی فائزہ ہاشمی بھی شامل ہیں جو ایرانی پارلیمان کی رکن رہی ہیں اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرتی رہی ہیں۔ان کو 27 ستمبر کو لوگوں کو مظاہروں میں شرکت پر ابھارنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔عدالتی حکام کا کہنا ہے کہ ان پر امن عامہ میں خلل ڈالنے اور حکومت کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کے الزام ہیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی