ایران میں سکیورٹی اہلکاروں کے تشدد سے ہلاک ہونے والی لڑکی کی والدہ نے خودکشی کر لی ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق 16 سالہ یوٹیوبر سارینہ اسماعیل زادہ کو پچھلے ماہ کراج میں احتجاج کے دوران سکیورٹی اہلکاروں نے شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا جس سے وہ دم توڑ گئی تھیں۔رپورٹ کے مطابق گھر والے کئی روز تک سارینہ کو ڈھونڈتے رہے اور 10ویں روز حکام نے لاش ان کے حوالے کی۔ سارینہ کے یوٹیوب چینل پر ایسی ویڈیوز موجود ہیں جن میں انہوں نے حجاب نہیں پہنا ہوا اور ایک شخص کے ساتھ ڈانس کر رہی ہیں اور ایک ویڈیو میں خواتین کے حقوق پر بات کر رہی ہیں۔گھر والوں کی طرف سے لاش کی وصولی کے لیے بار بار کوشش پر سکیورٹی اہلکاروں نے ان کی ماں کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی بیٹی غیراخلاقی سرگرمیوں میں ملوث اور دہشت گرد تھی۔بالآخر جب سارینہ کی لاش گھر والوں کے حوالے کی گئی تو ماں اس کی مسخ شدہ لاش کو دیکھ کر شدید صدمے کا شکار ہوئی اور گھر جا کر خود کو پھانسی لگا لی۔مقامی نیوز چینلز کے ادارے نے واقعے کی تصدیق کی ہے۔انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ سکیورٹی حکام نے لڑکی کے گھر والوں کو زبان بند رکھنے کے لیے مظالم کا نشانہ بھی بنایا۔دوسری جانب مہسا امینی کی پولیس حراست میں ہلاکت کے خلاف جاری احتجاج میں اب 185 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 19 بچے بھی شامل ہیں۔میٹرو کا کہنا ہے کہ مظاہروں کے دوران ہلاک ہونے والے افراد کی لاشیں سکیورٹی اہلکار تحویل میں لے لیتے ہیں اور رشتہ داروں کو حوالے کیے جانے کے حوالے سے سخت قوانین و ضوابط بنائے گئے ہیں جن سے گزرنا بنتا ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی