ایران میں مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف مختلف شہروں میں حکومت مخالف احتجاجیمظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ امریکا نے ایران کی اخلاقی پولیس پر پابندی کا اعلان کردیا۔غیر ملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایران کے مختلف شہروں میں مہسا امینی کی موت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے ۔ اوسلو میں قائم غیر سرکاری گروپ ایران ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ 30 سے زائد قصبوں اور شہروں میں مظاہرین کے خلاف چھ راتوں کے تشدد کے دوران ایران کے کریک ڈان میں کم از کم 31 شہری مارے گئے ہیں ۔ادھر امریکا نے مہسا امینی کے مبینہ قتل اور پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال پر ایران کی اخلاقی پولیس اور سات اعلی سیکیورٹی عہدیداروں پر پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مہسا امینی کی موت المناک اور سفاکانہ ہے جس کی امریکا پر زور مذمت کرتا ہے۔انٹونی بلنکن نے کہا کہ پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال پر امریکا ایران کی اخلاقی پولیس اور اعلی سیکیورٹی اہلکاروں پر پابندیاں عائد کررہا ہے جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔
امریکی اسٹیٹ سیکریٹری انٹونی بلنکن نے کہا ایرانی حکومت خواتین پر مظالم کو ختم اور پرامن احتجاج کا حق دے، امریکا ایران میں انسانی حقوق کی حمایت جاری رکھے گا اور اسکی خلاف ورزی کرنے والوں کا محاسبہ کرے گا۔22 سالہ مہسا امینی کو تہران میں اخلاقی پولیس نے 13 ستمبر کو ٹھیک سے اسکارف نہ پہننے پر گرفتار کیا تھا، اخلاقی پولیس کی حراست کے دوران مہسا امینی مبینہ تشدد سے کوما میں چلی گئی تھیں اور تین دن بعد ہسپتال میں دم توڑ گئی تھیں۔مہسا امینی کی موت کی خبر آتے ہی ایران میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے اور اب تک پرتشدد مظاہروں میں 3 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 17 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔جن ایرانی سیکیورٹی افسران پر امریکا نے پابندی عائد کی ہے ان میں اخلاقی پولیس کے سربراہ محمد رستمی، اخلاقی پولیس تہران کے سربراہ احمد مرزائی، ایران کے وزیر برائے انٹیلی جنس اسماعیل خاطب، غیر مسلح مظاہرین کو کنٹرول کرنے والی باسج فورس کے ڈپٹی کمانڈر سالار ابنوش، لا انفورسمنٹ فورس کے ڈپٹی کمانڈر قاسم رضائی، ایل ای ایف کے چہار محل اور بختیاری صوبوں کے کمانڈر منوچہر امان االلہ اور ایرانی فوج کی گراونڈ فورسز کے کمانڈر کیومرس حیدری شامل ہیں۔واضح رہے کہ ایران کی اخلاقی پولیس اسلامی اخلاقیات کے احترام کو یقینی بنانے اور غیر مناسب لباس پہنے ہوئے افراد کو حراست میں لینے کا کام کرتی ہے، ایرانی قانون کے تحت خواتین کا حجاب پہننا لازمی اور چست لباس پہننے پر پابندی ہے-
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی