یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوسیپ بوریل نے کہا ہے کہ ایران اور امریکا کو جوہری معاہدے میں واپس لانے کے لیے مذاکرات اس وقت تعطل کا شکار ہیں۔اس مجوزہ معاہدے کے تحت ایران اپنے جوہری پروگرام پرقدغنیں عائد کرے گا اور اس کے بدلے میں امریکا اس کے خلاف عائد کردہ پابندیاں ختم کردے گا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق بوریل نے ایک بیان میں کہا کہ مجھے خدشہ ہے،امریکا کی سیاسی صورت حال کے باعث اب ہم ایک طرح کے تعطل میں رہیں گے۔یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ نے گذشتہ ڈیڑھ ایک سال کے دوران میں ایران جوہری معاہدے کی بحالی کی کوششوں کو مربوط کیا ہے اور انھوں نے ایران اور امریکا کے درمیان ویانا اور دوسرے مقامات پر بالواسطہ مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔گذشتہ ماہ انھوں نے تمام فریقوں کے سامنے ایک متن پیش کیا تھا۔اسے انھوں نے اس وقت حتمی قرار دیا تھا۔انھوں نیغیر ملکی خبرساں ادارے سے گفتگو میں بتایا ہے کہ ہر ایک کے مقف کے درمیان یہ بہترین توازن کا نقطہ ہے۔لیکن ایران اس مطالبے پر قائم ہے کہ اقوام متحدہ کے تحت جوہری توانائی کا عالمی ادارہ (آئی اے ای اے) تحقیقات کی ایک لکیر کھینچے۔ایجنسی کو ایران کے تین غیرعلانیہ مقامات پر جوہری مواد کے نشانات ملے تھے۔
اس کے بعد سے ایران ایجنسی کے دائرہ اختیار کے بارے میں سوال اٹھا رہا ہے۔ادھر امریکا میں سیاسی صورت حال تبدیل ہوگئی ہے کیونکہ صدر جو بائیڈن کو نومبر میں کانگریس کے وسط مدتی انتخابات کا سامنا ہے جس سے ایران کے ساتھ جلد کسی معاہدے تک پہنچنا مشکل ہو گیا ہے۔بوریل نے کہا کہ گذشتہ دو ماہ کے دوران میں تجاویز باہم مدغم ہو رہی تھیں لیکن ناخوشگوار طور پر، موسم گرما کے بعد، آخری تجاویزمیں کوئی تال میل نہیں ہو رہا ہے- وہ مختلف ہو رہی ہیں۔انھوں نے مزید کہا:ایرانیوں کی آخری تجاویز سے کوئی مدد نہیں مل رہی تھی کیونکہ ہم قریبا وہاں موجود تھے، پھر نئی تجاویز سامنے آئیں اور سیاسی ماحول کوئی زیادہ سازگارنہیں ہے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہورہا ہے لیکن مجھے اگلے دنوں میں کسی پیش رفت کی توقع نہیں ہے۔جوہری معاہدے کے یورپی فریقوں برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ انھیں معاہدے کی بحالی کی خواہش میں ایران کے خلوص پر شدید شکوک و شبہات ہیں۔ایران نے مشترکہ اعلامیے کو غیر تعمیریاور افسوسناک قرار دیا۔بوریل نے بتایا کہ اس تعطل کو دور کرنے کے لیے وہ اور کچھ نہیں کرسکتے اور ان کے پاس کوئی تجویزپیش کرنے کے لیے مزید کچھ نہیں ہے-
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی