سعودی عرب کی سپریم کورٹ کے فرسٹ سرکٹ نے 2015 میں پیش آنے والے کرین حادثے کے حوالے سے اب تک آنے والے تمام فیصلوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبارہ مقدمہ چلانے کا حکم دیدیا ۔سعودی میڈیا کے مطابقسپریم کورٹ نے حکم جاری کیا ہے کہ نیا جوڈیشل سرکٹ کیس کا پھر سے جائزہ لے۔ اس فیصلے سے اپیل کورٹ مدعا علیہان اور دیگر مجاز حکام کو آگاہ کردیا گیا ہے۔ حکم میں ایک سال قبل کورٹ آف اپیل کی طرف سے جاری کیے گئے بریت کے فیصلے کی واپسی بھی شامل ہے۔کیس کو نظرثانی کے لیے نئے جوڈیشل سرکٹ کو بھیجا جائے گا جہاں نئے ججز اس کا جائزہ لیں گے۔قانون دان ڈاکٹر بن عبدالعزیز المحمود کا کہنا ہے کہ فیصلہ عدلیہ کی آزادی کی تصدیق کرتا ہے اور اس بات کی بھی کہ سپریم کورٹ میں نمائندگی رکھنے والے اعلی عدالتی حکام اس کی نگرانی کریں گے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ اتھارٹی فیصلہ کرنے والی عدالت نہیں ہے بلکہ اس عدالت کے خلاف ایک شکایتی باڈی ہے جس نے فیصلہ جاری کیا تھا۔المحمود کے مطابق یہ فیصلے کو قانونی اور ریگولیٹری ضوابط کے اطلاق اور تشریح کے لحاظ سے دیکھے گی جبکہ مقدمے کے طریقہ کار کا بھی جائزہ لے گی۔انہوں نے بتایا
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کچھ اہم قانونی کمیاں نوٹ کیں جو کہ فوجداری آرٹیکل 181 کے حوالے سے تھیں، جبکہ لاپرواہی کے الزامات کا سامنا کرنے والوں سے بھی جامع تحقیقات نہیں ہوئیں۔ان کے مطابق اگر وہ فوجداری کے آرٹیکل 19کے مطابق ذمہ دار قرار پائے گئے تو ان کا احتساب کیا جائے گا۔یاد رہے واقعہ 11 دسمبر 2015 کو حج سیزن سے قبل اس وقت پیش آیا تھا جب مسجد الحرام کے تعمیراتی کام کے لیے استعمال ہونے والی کرین اچانک گر گئی، جس کے نتیجے میں 110 افراد ہلاک اور 209 زخمی ہوئے تھے جبکہ مسجد الحرام کی عمارت کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ سانحہ پیش آنے کے بعد شاہ سلمان نے مرنے والوں کے خاندانوں میں دس لاکھ سعودی تقسیم کرنے کا حکم دیا تھا جبکہ پانچ لاکھ ریال زخمیوں کے لیے جاری کیے گئے تھے۔تاہم اس وقت جاری ہونے والے شاہی حکم میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ معاوضہ ذاتی حق کے لیے دائر کیے جانے والے عدالتی دعوے کو نہیں روکے گا۔
کریڈٹ:
انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی