بدترین معاشی بحران سے دوچار سری لنکا میں ادویات سے لے کر گیس تک ہر چیز کی قلت ہے۔ کسی وقت میں نسبتاً متمول سمجھے جانے والے ملک میں اب شہری لکڑیاں جلا کر کھانا پکانے کے دور کی جانب لوٹ رہے ہیں۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق دو کروڑ 20 لاکھ آبادی کے ملک میں زیادہ تر افراد کے لیے گھروں میں گیس ناپید ہو گئی ہے جبکہ جہاں دستیاب ہے وہاں اس کی قیمت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔بعض سری لنکن شہریوں نے کھانا پکانے کے لیے مٹی کے تیل کے چولہے خرید لیے ہیں تاہم حکومت کے پاس پٹرولیم مصنوعات کی درآمد کے لیے زرمبادلہ نہ ہونے کے باعث کیروسین آئل بھی دستیاب نہیں۔جن افراد نے بجلی سے چلنے والے الیکٹرک کْکر لیے اْن کو بھی دھچکا لگا ہے کیونکہ بجلی کی بلاتعطل فراہمی ممکن بنانا بھی سری لنکا کی حکومت کے لیے مشکل ہے۔بجلی بنانے والے کارخانے گیس اور فرنس آئل سے چلتے ہیں اور پوری دنیا میں توانائی کے بحران نے پہلے سے معاشی بدحالی کے شکار سری لنکا کو ان اشیا کی خریداری کے قابل نہیں چھوڑا۔ایندھن کی درآمد کے لیے زرمبادلہ نہ ہونا ہی دراصل سری لنکا کی حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کی معیشت کا دار و مدار سیاحت پر تھا اور کورونا کی وبا کے باعث یہ شعبہ بری طرح متاثر ہوا۔ سڑک کنارے کھانے پینے کی اشیا بیچنے والی 67 سالہ ایم جی کروناوتی نے بھی لکڑیاں جلانا شروع کر دی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اب کاروبار بند کرنے یا دھوئیں کے ساتھ رہنے کے درمیان ایک کا انتخاب کرنا تھا۔کروناوتی نے اے ایف پی کو بتایا، 'ہم لکڑی جلا کر کھانا پکاتے وقت دھویں کا شکار ہوتے ہیں، لیکن ہمارے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہے۔انہوں نے بتایا کہ آگ جلانے کے لیے لکڑی تلاش کرنا بھی مشکل ہے اور یہ بہت مہنگی بھی ہوتی جا رہی ہے۔
کریڈٹ:
انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی