گیم ڈویلپمنٹ انڈسٹری پاکستان کے نوجوانوں کے لیے کمائی کا ایک اہم ذریعہ بن رہی ہے۔ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے ایک ڈویلپرعدنان مسعود نے کہا کہ گیم ڈیولپمنٹ نوجوانوں کی روزی کے لیے ایک طاقتور انجن کے طور پر ابھر رہی ہے کیونکہ پاکستان کا ڈیجیٹل لینڈ سکیپ ایک تبدیلی سے گزر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ گیمنگ انڈسٹری نے کمائی کے مواقع کی دنیا کی پیشکش کی ہے کیونکہ دنیا بھر میں ہر کوئی ممکنہ گاہک ہے۔ انہوں نے کہا کہ گیم ڈویلپرز آن لائن کلائنٹس کی تلاش کر رہے ہیں اور امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور دیگر ممالک میں مقیم لوگوں کو اپنی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔گیم ڈویلپرز بین الاقوامی منڈیوں سے سالانہ لاکھوں ڈالر حاصل کر کے قومی معیشت کو مضبوط کر رہے ہیں۔ کمانے کا یہ انداز نوجوانوں کے لیے نوکریاں پیدا کر رہا ہے اور ڈیجیٹل معیشت میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔گیم ڈویلپرز کی کمائی پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک انٹری لیول گیم ڈویلپر ماہانہ 500 اور 800 ڈالرکے درمیان آسانی سے کما سکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی اسٹوڈیوز کے ساتھ کام کرنے والے ڈویلپرز نے اور بھی زیادہ کمایا اور بہت سے مقامی لوگوں کے لیے روزگار بھی پیدا کیا۔انہوں نے کہا کہ سرکاری تعلیمی اداروں کو خصوصی گیم ڈویلپمنٹ اور انٹرایکٹو میڈیا کورسز پیش کرنے چاہئیںجس سے نوجوانوں کو بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کے قابل بنایا جائے۔حسن علی، ایک گرافک ڈیزائنر کے مطابق گیمنگ انڈسٹری تمام محاذوں پر عروج پر ہے کیونکہ ای کھیل ترقی کر رہا ہے اور لوگ ایک سے زیادہ گیمز کھیل کر ماہانہ اچھی رقم کماتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اچھے گیمرز نے متعدد ویڈیو سٹریمنگ چینلز پر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور منیٹائزیشن اور برانڈ تعاون کے ذریعے کمائی کی۔اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ اس صنعت کی تیز رفتار ترقی کو محسوس کرتے ہوئے سرمایہ کاروں نے گیمنگ مقابلوں کا انعقاد بھی شروع کر دیا ہے جہاں انہوں نے منافع بخش انعامات اور متعدد تحائف پیش کیے ہیں۔ دنیا کے مختلف حصوں سے لوگ ان مقابلوں میں آن لائن اور ایونٹ کے مقام پر حصہ لیتے ہیں۔محمد عادل، جنہوں نے گیمنگ انڈسٹری میں ایک ڈویلپر کے طور پر اپنا کیریئر بنانے کے لیے سرکاری ملازمت چھوڑ دی، نے کہا کہ حالیہ برسوں میں اس صنعت میں تبدیلی آئی ہے اور اس کا ارتقا انقلابی سے کم نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ چند سال قبل پاکستان میں گیم ڈویلپمنٹ کو کامیاب کیریئر نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے کیونکہ یہ ایک منافع بخش پیشہ ورانہ راستہ بن گیا ہے۔ اس صنعت میںنوجوان ڈویلپرز کی کوئی حد نہیں ہے کیونکہ وہ مقامی اور بین الاقوامی دونوں منڈیوں میں جا سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نوجوانوں کو مقامی بازاروں تک محدود رکھنا ان کی صلاحیتوں کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔پاکستانی ڈویلپر ایسی گیمز بنا رہے ہیں جو گوگل پلے، سٹیم اور ایپل ایپ اسٹور جیسے عالمی پلیٹ فارمز پر مقابلہ کر سکیں۔
وہ گیم کی ایک وسیع رینج تیار کرنے کے قابل ہیں ۔انہوں نے تجویز دی کہ حکومت کو ایسے پلیٹ فارم قائم کرنے چاہئیں جہاں بین الاقوامی کلائنٹس اعتماد کے ساتھ آرڈر دے سکیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ سب ایک ہی صفحے پر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مقامی ڈویلپرز کو مالی مدد کی ضرورت ہے، جبکہ بین الاقوامی کلائنٹس کو پریشانی سے پاک منصوبوں کی ضرورت ہے۔ہمارے نوجوانوں کو جدید تربیتی پروگراموں تک محدود رسائی حاصل ہے جو بین الاقوامی سطح پر مقابلہ کرنے کے لیے بہت ضروری ہیں۔ اسی طرح حکومت کو سافٹ ویئر ہاوسز کے قیام کے لیے انہیں بلاسود قرضوں کی پیشکش کرنی چاہیے۔ سرمائے کی ابتدائی رکاوٹوں پر پالیسی سازوں کی فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے سے پاکستان میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔حسن علی نے کہا کہ تیز رفتار انٹرنیٹ گیمنگ انڈسٹری میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاہم چند مہینوں سے وہ انٹرنیٹ کی بندش کا سامنا کر رہے تھے جو گیمنگ کے کاروبار کو نقصان پہنچا رہے تھے۔ بین الاقوامی گیم پبلشرز سرگرمی سے پاکستان سے ٹیلنٹ تلاش کر رہے ہیںکیونکہ وہ سستی اور انتہائی ہنر مند ہیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی ویلتھ پاک