پائیدار زراعت کی جانب ایک اہم پیش رفت میں بلوچستان اپنی توجہ نامیاتی کپاس کی کاشت پر مرکوز کرنے کے لیے تیار ہے، یہ فیصلہ خطے کے لیے خاطر خواہ ماحولیاتی اور اقتصادی فوائد کا وعدہ کرتا ہے، ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق یہ اقدام ماحول دوست کاشتکاری کی طرف عالمی رجحانات کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور بلوچستان کو نامیاتی کپاس کی منڈی میں ایک اہم شراکت دارکے طور پر کھڑا کر سکتا ہے۔بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جو اس کے 44 فیصد رقبے پر مشتمل ہے اور اس کا ایک اہم زرعی شعبہ ہے۔ بلوچستان زمیندار ایکشن کمیٹی کے سیکرٹری جنرل عبدالرحمن بازئی نے کہا کہ اس کے پاس وسیع قابل کاشت اراضی ہے جو کہ سازگار آب و ہوا کے ساتھ مل کر اسے نامیاتی کپاس کی کاشت کے لیے ایک مثالی خطہ بناتی ہے۔ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ یہ تبدیلی روایتی کپاس کی کاشتکاری کے ماحولیاتی نقصان پر بڑھتے ہوئے خدشات کے جواب میں آئی ہے جو مصنوعی کیڑے مار ادویات اور کھادوں پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔ یہ کیمیکلز زمین کی زرخیزی کو ختم کرتے ہیں، پانی کے وسائل کو آلودہ کرتے ہیں اور حیاتیاتی تنوع کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
نامیاتی طریقوں کی طرف منتقلی کے ذریعے بلوچستان ان رجحانات کو تبدیل کر سکتا ہے، صحت مند ماحولیاتی نظام کو فروغ دے سکتا ہے اور اس کے کاربن فوٹ پرنٹ کو کم کر سکتا ہے۔اس کے علاوہ نامیاتی کپاس کی پیداوار کو ترجیح دینے سے درآمد شدہ کپاس پر انحصار کم ہوگا، زرمبادلہ کا تحفظ ہوگا اور عالمی آرگینک مارکیٹ میں بلوچستان کو ایک کلیدی صوبے کے طور پر مقام حاصل ہوگا۔ بزئی نے کہا کہ آرگینک ٹیکسٹائل کی مانگ میں اضافے کے ساتھ، بلوچستان منافع بخش عالمی منڈیوں تک رسائی حاصل کر سکتا ہے جہاں صارفین تیزی سے پائیداری کو ترجیح دیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ نامیاتی کپاس بین الاقوامی مارکیٹ میں ایک پریمیم قیمت دیتی ہے جو ہمارے کسانوں کو بہتر منافع کی پیشکش کرتی ہے۔ اس اقدام سے نہ صرف ہمارے کسانوں کا ذریعہ معاش بلند ہوگا بلکہ صوبے میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو بھی راغب کیا جائے گا۔اگرچہ فوائد واضح ہیں، نامیاتی کپاس کی طرف منتقلی چیلنجوں کے بغیر نہیں ہے۔ کسانوں کو کاشتکاری کے نئے طریقوں کو اپنانے اور تبدیلی کی مدت کے دوران پیداوار میں ابتدائی کمی کو برداشت کرنے کی ضرورت ہوگی۔ مزید برآںنامیاتی تصدیق شدہ بیجوں تک رسائی اور بین الاقوامی سرٹیفیکیشن حاصل کرنا وہ رکاوٹیں ہیں جن کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔
اس منتقلی کی حمایت کرنے کے لیے حکومت بلوچستان کو سپلائی چین کے رابطے قائم کرنے، سرٹیفیکیشن کے عمل کو آسان بنانے اور کسانوں کو مالی مراعات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ سبسڈی والے نامیاتی بیجوں کی فراہمی، تربیتی ورکشاپ کا انعقاد اور نامیاتی کھادوں تک رسائی کو یقینی بنانا ان اقدامات میں شامل ہیں جو متعارف کرائے جا سکتے ہیں۔ پائیدار زراعت کی جانب ایک اہم اقدام کرتے ہوئے بلوچستان نے اپنی نامیاتی زراعت پالیسی 2024 کی منظوری دی ہے جس کا مقصد صوبے کے کاشتکاری کے طریقوں میں انقلاب لانا ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے تعاون سے تیار کی گئی پالیسی کے تحت بلوچستا ن کے زرعی توسیعی محکمے نے بین الاقوامی معیار کے مطابق طریقوں کو فروغ دیتے ہوئے 95,000 ایکڑ اراضی اور 12,000 کسانوں کو ہدف بنایا ہے۔2023-24 میں بارکھان، لسبیلہ، کوہلو اور خضدار سمیت اہم اضلاع میں 67,067 ایکڑ سرٹیفائیڈ آرگینک کپاس پہلے ہی کاشت کی جا چکی تھی جس سے امریکہ اور یورپ میں زیادہ مانگ والی منڈیوں کے دروازے کھل گئے۔ اس تبدیلی کے اقدام سے نہ صرف صوبائی معیشت کو فروغ دینے کی امید ہے بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے کسانوں کی لچک کو بھی تقویت ملے گی اور خوراک کی حفاظت میں اضافہ ہوگا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی ویلتھ پاک