ملک کے معروف انٹرنیشنل باکسر محمد وسیم نے وفاقی اور بلوچستان حکومت سے شکوہ کیا ہے کہ بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کے لیے ویزے کے حصول اور دیگر مسائل کے حل میں ان کی مدد نہیں کی جا رہی جس کی وجہ سے ان کا پروفیشنل کیریئر متاثر ہو رہا ہے۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میری توجہ باکسنگ اور ٹریننگ پر ہونی چاہیے تاکہ مزید بین الاقوامی مقابلے جیت کر ملک کا نام روشن کر سکوں لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا اور میں حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے ورلڈ چمپیئن شپ میں شرکت سے محروم ہو رہا ہوں۔ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے 34 سالہ محمد وسیم باکسنگ کی دنیا میں فالکن کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ وہ ورلڈ باکسنگ فیڈریشن کے دو مرتبہ سلور فلائی ویٹ ٹائٹل جیتنے والے پہلے پاکستانی باکسر ہیں۔ محمد وسیم نے رواں ہفتے مالٹا میں ورلڈ باکسنگ فیڈریشن کے بینٹم ویٹ کیٹگری کے رینکنگ مقابلہ میں جارجیا کے جابا میمیشی شی کو بھی ناک آئوٹ کیا۔ اس سے پہلے امیچور باکسنگ کے عالمی مقابلوں میں بھی محمد وسیم درجن سے زائد میڈلز جیت چکے ہیں۔انٹرنیشنل باکسر کا کہنا ہے کہ اصل میں مجھے مالٹا میں ورلڈ باکسنگ فیڈریشن کے بینٹم ویٹ کیٹگری کے ورلڈ چیمپئن شپ ٹائٹل کے لیے لڑنا تھا مگر چار اکتوبر کو ہونے والا یہ مقابلہ بروقت ویزا نہ ملنے کی وجہ سے ملتوی کرنا پڑا۔محمد وسیم نے بتایا کہ مالٹا میں ہونے والے مقابلے میں شرکت کے لیے نمارک کے سفارتخانے میں پاسپورٹ جمع کرایا تھا مگر تقریبا دو ماہ تک پاسپورٹ رکھنے کے باوجود سفارتخانے نے ویزا مسترد کیا اور یہ کہا کہ آپ غائب ہو جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ میں انٹرنیشنل باکسر ہوں اور ورلڈ چمپیئن رہ چکا ہوں، برطانیہ اور امریکہ سمیت دنیا بھر کا سفر کرچکا ہوں لیکن اس کے باوجود توہین آمیز رویہ اپنایا گیا۔ ویزے کے مسائل کے حل کے لیے انہوں نے ہر فورم پر آواز اٹھائی، وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے مدد طلب کی مگر وفاقی اور بلوچستان حکومت نے کوئی مدد نہیں کی۔
حکومت چاہتی تو ان کے ایک لیٹر پر میرے بڑے مسئلے حل ہوسکتے تھے مگر کسی نے دلچسپی ہی نہیں لی۔ انہوں نے کہا کہ بڑی مشکلوں سے ویزا لے کر میں اٹلی پہنچا۔ وہاں سے مالٹا جانا بھی ایک مسئلہ تھا، میڈیکل اور دیگر کاغذی کارروائیوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ میں اپنے اخراجات پر آخری دنوں میں مالٹا پہنچا تو منتظمین نے کہا کہ آپ نے مقابلے سے پہلے مطلوبہ تربیتی مرحلہ پورا نہیں کیا اس لیے مقابلہ اب نہیں ہو سکتا۔ پاسپورٹ پھنسنے کی وجہ سے میرا لیور پول میں تربیتی کیمپ مِس ہو گیا تھا۔مجھے مجبورا صرف رینکنگ فائٹ لڑنا پڑی۔ صرف ایک ہفتے کی تربیت کا موقع ملا اس کے باوجود میں نے یہ فائٹ جیتی اور حریف جارجین باکسر کو تیسرے ہی رائونڈ میں ناک آئوٹ کیا۔محمد وسیم 2018 میں ورلڈ فلائی ویٹ ٹائٹل میں افریقی باکسر سے کانٹے دار مقابلے میں شکست کھا گئے تھے۔ اسی طرح 2022 میں انہیں عالمی چمپیئن شپ بننے کی دوڑ میں برطانوی باکسر سنی ایڈورڈز سے شکست ہوئی۔ دو ناکامیوں کے بعد اب محمد وسیم ورلڈ ٹائٹل جیتنے کے لیے پرعزم ہیں۔ان کا مقابلہ اگلے ماہ جنوبی افریقہ کے سبیلو سیبو کولو سے ہوگا جو ڈبلیو بی ایف میں اب تک اپنے تمام سات مقابلے جیت چکے ہیں۔پاکستانی باکسر کا کہنا ہے کہ ورلڈ باکسنگ فیڈریشن نے ملتوی شدہ چیمپئن شپ مقابلہ نومبر کے آخری ہفتے یا پھر دسمبر کے پہلے ہفتے میں مالٹا میں کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ مجھے پھر سے پریشانی ہو گئی ہے کیونکہ دوبارہ سے یورپ کا ویزا لینا ہو گا۔ دوبارہ وہی سفارتخانوں کے چکر لگانے پڑیں گے۔محمد وسیم کا کہنا ہے کہ میں حیران ہوں کہ کیا کروں؟ باکسنگ مقابلوں کی تیاری کروں یا سفارتخانوں کے چکر لگائوں۔ انہوں نے کہا سات آٹھ سال کی عمر میں باکسنگ سیکھنا شروع کی تو کوئی بھی سہولیات نہیں تھیں۔ خاندان کی طرف سے بھی سپورٹ نہیں تھی وہ صرف پڑھائی پر زور دیتے تھے۔
جب کلب جاتے تھے تو ان کے پاس جوتے، دستانے اور نہ ہی ٹریک سوٹ ہوتا تھا۔وہ مقامی سطح پر مقابلوں میں شرکت کے لیے 30،40 کلومیٹر پیدل سفر کرتے تھے۔محمد وسیم نے کہا کراچی میں کھیلنے جاتے تو وہاں 47 سینٹی گریڈ کی گرمی میں بھی کیمپ میں بجلی نہیں ہوتی، مچھروں کی بہتات ہوتی، کھانا بھی ٹھیک نہیں ملتا تھا۔ ٹیم کے ساتھ ریل کے سفر کے دوران ہم باتھ روم کے پاس جاکر سوتے تھے ۔ان حالات میں ہم نے باکسنگ کھیلی اور اس مقام تک پہنچے۔وسائل کی کمی کے باوجود عالمی سطح پر پہچان بنانے والے محمد وسیم حکومتی سرپرستی نہ ملنے کی وجہ سے پہلے بھی کئی مرتبہ عالمی مقابلوں میں شرکت سے محروم رہے۔ ماضی میں کئی بار انہوں نے مایوسی کا اظہار کرکے بیرون ملک شہریت لینے کا عندیہ بھی دیا۔ احتجاج کے بعد حکومت نے ان کی مدد کی اور انہیں اچھے سپانسر بھی ملے لیکن اب ایک بار وسیم مایوس دکھائی دے رہے ہیں۔محمد وسیم کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی مایوس کن صورتحال ہے، ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا، ماضی میں بھی مجھے بہت ساری مالی مشکلات، پروفیشنل ٹریننگ اور ویزے کے مسائل رہے، دوسرے ملکوں کے کھلاڑیوں کو ایسے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ان کی توجہ ٹریننگ اور مقابلوں پر ہوتی ہے لیکن ہمیں ہر محاذ پر لڑنا پڑتا ہے۔ اپنے اخراجات پر جانا پڑتا ہے۔کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے انٹرنیشنل باکسر نے وزیراعلی بلوچستان سرفراز بگٹی سے اپیل کی کہ وہ ذاتی دلچسپی لے کر وفاقی حکومت سے معاملہ اٹھائیں اور ان کے ویزے کے مسائل حل کریں اور سپانسر شپ فراہم کریں۔انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے بھی درخواست کی ہے کہ اگلے ماہ ہونے والے مقابلے کے لیے انہیں ویزا دلائیں تاکہ وہ مطمئن ہو کر اپنی ٹریننگ پر توجہ دے سکیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی