صوبہ پنجاب کے شہر لودھراں کے سکیورٹی گارڈ نے اپنی باصلاحیت بیٹی کے انٹرنیشنل کرکٹر بننے پر کہا ہے کہ اس سے مجھے ایسی خوشی ملی جس کا کوئی ٹھکانہ نہیں اور میری بیٹی نے بیٹوں جیسا کام کیا ہے۔15 سالہ شہر بانو، آمنہ گرلز ہائیر سیکنڈری سکول میں ساتویں کی طالبہ ہیں۔ انہوں نے ملائیشیا میں جاری ویمنز انڈر 19 ٹی20 ایشیا کپ میں نیپال کے خلاف میچ سے انٹرنیشنل کیریئر کا آغاز کیا۔شہر بانو کے والد لیاقت عباس ملتان میں ایک ویئر ہائوس میں بطور سکیورٹی گارڈ کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ خود اپنی بیٹی کے ساتھ گھر میں کرکٹ کھیلتے تھے، تاکہ وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہو۔لیاقت عباس نے ایک انٹرویو میں کہا کہ محلے کے لڑکے بار بار آ کر کہتے تھے، کہ آپ کی بیٹی تو لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھیل رہی ہے تو میں ان کو بتاتا کہ یہ ہے تو میری بیٹی لیکن بیٹوں جیسے کام کرے گی۔ لیاقت عباس نے بتایا کہ شہربانو ان کی سب سے چھوٹی بیٹی ہیں لیکن انہوں نے بڑے بچوں سے زیادہ سے زیادہ خوشی دی ہے۔انہوں نے بتایا میرے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں جن میں شہربانو سب سے چھوٹی ہے اور مجھے ایسی خوشی دی ہے، جس کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ بیٹی ہوتے ہوئے بھی بیٹوں جیسا کام کیا ہے۔ لیاقت عباس کے بڑے بیٹے حسن رضا آرمی میں ہیں، جبکہ دوسرے بیٹے یوسف عباس بھی آرمی میں جانے کے لیے اپلائی کر چکے ہیں۔
ایک بیٹی خدیجہ بی بی کی شادی کروا دی ہے جبکہ زینب بی بی نے میٹرک کے بعد پڑھائی چھوڑ چکی ہیں۔چک نمبر 48 ایم سے تعلق رکھنے والی شہر بانو ترین کرکٹ اکیڈمی کی ٹیم سے کھیلتی ہیں۔ انہوں نے کرکٹ کا آغاز بھی اسی اکیڈمی سے کیا۔ لیاقت عباس کا کہنا ہے کہ شہربانو کو اکیڈمی پہنچانے میں ترین کرکٹ اکیڈمی کے ایک پچ کیوریٹر شہباز حیدر نے اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے بتایا میرے پاس شہباز حیدر آئے اور بتایا کہ آپ کی بیٹی بہت اچھا کھیلتی ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو ہم انہیں اکیڈمی میں کرکٹ سکھائیں گے، ہمیں امید ہے کہ یہ بہت آگے جائیں گی۔ میں چونکہ ملتان میں ہوتا ہوں اس لیے بچوں کو زیادہ وقت نہیں دے پاتا، اس لیے بھائی نے کہا کہ وہ شہربانو کو بائیک پر اکیڈمی چھوڑ دیا کریں گے۔لیاقت عباس نے بتایا کہ چھوٹا بچہ سب کے لیے پیارا ہوتا ہے اور شہربانو نے تو ان کو ایسی خوشی دی ہے کہ وہ اب تک اس کیفیت کو نہیں بھول پا رہے۔ ترین کرکٹ اکیڈمی کے اونر علی خان ترین نے قومی انڈر 19 ٹیم میں منتخب ہونے پر شہر بانو کو مبارکباد بھی پیش کی ہے۔ لیاقت عباس نے سکیورٹی گارڈ کی نوکری 2015 میں شروع کی۔ اس وقت ان کی تنخواہ 15 ہزار تھی جبکہ آج وہ 33 ہزار ماہانہ تنخواہ پر ایک ویئر ہاس میں نوکری کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ دیہی علاقے میں رہتے ہیں جہاں لڑکیوں کی تعلیم پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ سب کہتے تھے کہ وہ لڑکی ہے اور کرکٹ کھیل رہی ہے۔ میں کہتا تھا کہ میں بھی اپنی بیٹی کے ساتھ کرکٹ کھیلتا ہوں اس میں کوئی برائی نہیں۔لیاقت عباس کا کہنا تھا کہ جب انہیں خبر ملی کہ ان کے لیے سب کچھ تھم سا گیا تھا۔ ایک تو خوشی ہوتی ہے جبکہ ایک آپ خوشی سے سن ہو جاتے ہیں، سب کچھ رک جاتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ بس یہ لمحہ رکا رہے اور بیٹی کے انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کی خبر پر میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ان کی خواہش ہے کہ شہربانو اپنے ملک کے لیے مزید کھیلے اور نام روشن کرے۔ہمیں یہ اندازہ ہو گیا کہ شہربانو اگر کرکٹ کھیلتی ہے تو کچھ اچھا ہی کر رہی ہے۔ ابھی خواہش یہ ہے کہ وہ اچھے سے اچھا کھیلے اور نام روشن کرے۔
کریڈٹ : انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی