ایشین والی بال لیگ کے فائنل میں چلرز نہ ہونے کی وجہ سے شائقین کو شدید کوفت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔10 ہزار گنجائش کے جمنازیم میں سکولوں سے بچوں کو لایا گیا تھا اور تقریبا جمنازیم کی تمام سیٹیں پر ہو گئی تھی لیکن شدید حبس اور گرمی کی وجہ سے بچے پریشان دکھائی دیے اور باری باری وہ باہر نکلتے رہے۔پینے کے پانی کا بھی کوئی معقول انتظام نہیں تھا جس کی وجہ سے طلبہ کو شدید کوفت اٹھانی پڑی۔چیمپین شپ کے لیے اگرچہ انٹری فری تھی لیکن پنڈی اسلام اباد کے شہریوں نے اس لیگ میں کوئی دلچسپی نہ لی اور اس لیگ کو کامیاب بنانے کے لیے فیڈرل سکولوں کے ایوننگ اور مارننگ شفٹ کے بچوں کو بسوں میں بھر کر لایا گیا ۔چھ کروڑ سے زائد بجٹ والی اس لیگ میں گرمی سے نمٹنے کے لیے کوئی مناسب انتظام نہ کرنے پر شائقین کو شدید شدید مایوسی ہوئی۔اسلام اباد میں مقیم ترکمانستان کی کمیونٹی نے بھی یہ میچ دیکھا لیکن وہ بھی گرمی سے بے حال دکھائی دیے۔فیڈریشن نے وی ائی پی سٹینڈ میں تو پنکھوں کا انتظام کیا ہوا تھا لیکن باقی ہال میں بیٹھے طلبہ پسینے سے شرابور دکھائی دیے۔والی بال فیڈریشن نے گرمی کو بالکل مد نظر نہیں رکھا اور اسلام اباد میں ٹمپریچر بڑھ گیا اور میچ رات کو کرانے کے بجائے شام کو رکھے گئے جس سے شدید حبس پیدا ہو گئی۔جمنازیم میں چلر نہ ہونے کی وجہ سے انٹرنیشنل ٹیموں کو بھی شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔عالمی سطح کے اس ایونٹ میں فقط چلرز کا انتظام نہ کرنے پر نہ صرف فیڈریشن بلکہ سی ڈی اے کا بھی امیج مجروح ہوا۔عملا وفاقی سکولوں کے بچے بچیوں کو جمنازیم میں شدید حبس اور گرمی میں حبس بے جا میں رکھا گیا۔اساتذہ کا موقف تھا کہ ہم مجبور ہیں ہمیں ارڈر ملا ہے کہ بچوں کی بسیں بھر کر لانی ہیں لیکن اگر یہی حال رہا تو ہم آئندہ بچے نہیں لائیں گے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی