i پاکستان

صلاح الدین صدیقی صاحب سے میری پہلی ملاقات جنوری 1981 میں لندن میں ہوئی۔تازترین

November 18, 2024

صدیقی صاحب سے میری پہلی ملاقات جنوری 1981 میں لندن میں ہوئی۔ میں اُن کے دفتر میں جانے کے لیۓ ایلیویٹر سے نکلنے لگا تو وہ مُسکراتے ہوئے داخل ہورہے تھے۔ علیک سلیک کے بعد کہا تم دفتر میں بیٹھو اور میں آی 

‎مجھے برٹش ایئرویز کے ہاؤس جرنل (بی اے نیوز) کے ایڈیٹر سے ملنا تھا سو میں اُن کے دفتر پہنچا اور تھوڑی ہی دیر میں وہ آگئے۔  صلاح الدین صاحب نے مجھے بتایا کہ ایڈیٹر موجود نہیں اس لیۓ تمہاری ملاقات ڈپٹی ایڈیٹر سے ہوگی۔ تم کل صُبح نو بجے اُن کے دفتر پہنچ جانا اور تاکید کی کہ میں وقت پر وہاں پہنچ جاؤں۔ دوسرے دن بھی اُن سے ملاقات ہوئی۔ وہ لندن میں پی آئی اے کے مینجر تعلقات عامہ تھے اور بقول سینئر صحافی عبدارشید بنگش ایڈیٹر ہفت روزہ مشرق، لندن):  “ایک نفیس، با اُصول اور مخلص انسان جن سے میری گاڑھی چھنتی تھی۔ وہ دوستوں کے دوست تھے اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر اپنے ادارے کے لیۓ خُوش اُسلوبی سے فرائض سر انجام دیتے رہے۔

“صلاح الدین اُن چھ خوش قسمت افراد میں شامل تھے جو 1965میں پی آئی اے کے قاہرہ کریش میں سلامت رہے۔ وہ ایک طویل عرصہ تک لندن میں تعینات رہے اور 1980 میں جنرل منیجر پبلک اَفیرز کے عہدے پر ترقی پاکر کراچی چلے گئے۔

“صلاح الدین اب اس دُنیا سے جاچکے ہیں مگر اُن کی یادیں دلوں میں تازہ ہیں۔ *حق مغفرت فرمائے عجب آزاد مرد تھا۔*

“قاہرہ کریش میں بچ جانے والے، پی آئی اے ہی کے جلال الکریمی، ما شاء اللّٰہ بقیدِِ حیات اور کراچی میں مُقیم ہیں”۔

صلاح الدین صدیقی، اُن کے صاحبزادےمُعین صدیقی کے مطابق 3 جنوری 1932 کو بہار میں پیدا ہوئے۔ علیگڑھ اور ڈھاکہ میں تعلیم پائی اور 1953 میں بی-ایس سی کیا۔

اُنہوں نے 25 مارچ 1955 میں پی آئی اے سے اپنی عملی زندگی کا آغاز اور ہمیشہ محنت و تندہی سے کام کیا۔ وہ محنت و لگن، خلوص اور انسانیت کو اپنی کامیابی کا راز قرار دیتے تھے۔

پی آئی اے میں 1981 میں مارشل لاء ریگولیشن۔52 کے نفاذ کے کچھ عرصہ بعد، اُنہیں قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے کو کہا گیا جس کے بعد وہ واپس لندن چلے آئے جبکہ عمر کے لحاظ سے ابھی تقریبا گیارہ سال باقی تھے۔

اُن کے صاحبزادے مُعین صدیقی کے مطابق اُن کے خاندان کے لیۓ وہ ایک انتہائی کٹھن دور تھا جس کے دوران ان کی والدہ اور بھائی کا انتقال بھی ہوا۔ 

‎صلاح الدین صدیقی صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں۔ہمارے ایک دوست و ساتھی، بشیراحمد چوہدری کا کہنا ہے: 

“میں دوپہر کو کھانے کے وقفہ کے دوران کسی کام سے جی۔ایم کے کمرے میں گیا تو وہ کمرے میں نہ تھے۔ اُن کے سیکریٹری بشیر صاحب بھی لنچ کے لیۓ جاچکے تھے۔ ٹیلیفون کی گھنٹی بج رہی تھی۔ 

“میں نے فون اُٹھایا تو چیئرمین آفس، راولپنڈی سے بتایا گیا کہ سیکریڑی جنرل دفاع و چیئرمین پی آئی اے سی، میجر جنرل (ریٹائرڈ) ایم۔ رحیم خان، صلاح الدین صدیقی صاحب سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ اتنی دیر میں وہ واپس آچکے تھے۔ 

“میں نے اُنہیں بتایا تو انہوں نے وہیں کھڑے کھڑے گُفتگو کی اور نہایت پُرسکون انداز میں کہا، جی ٹھیک ہے۔ اس کے بعد وہ خاموشی سے اندر چلے گئے اور سہہ پہر تک رضاکارانہ ریٹائرمنٹ کی درخواست دے دی”- 

چند دن کے وہ لندن روانہ ہوگئے۔ اُن کے اعزاز میں ایک شاندار الوداعی دعوت ہوئی-

اس موقع پر شیکئسپئر کا یہ قول یاد آیا: 

 "He was a man take him for all in all, I shall not look upon his like again”? جو ایک الوداعی کارڈ پر لکھوا کر ہم سب کی جانب اُنہیں تحائف کے ساتھ پیش کیا گیا۔ اور لندن روانگی پر اُنہیں بوجھل دل اور دُعاؤں کے ساتھ رُخصت کیا گیا

وہ جب بھی پاکستان آتے تو اُن سے ملاقات رہتی اور ٹیلیفونی رابط بھی۔ اکثرگفتگو ہوتی رہتی تھی۔ سوائے گذشتہ چند ماہ کے اور وہ بھی بوجہ اُن کی علالت۔

میں جب بھی فون کرتا تو ہمیشہ ایک لمبی ہاں کہتے ہوئے محبت آمیز لہجے میں پوچھا کرتے، کیسے ہو؟ اور مجھے ایسا لگتا کہ وہ لندن دفتر میں میرے سامنے کھڑے ہوئے ہیں! سب کا حال احوال پوچھتے۔ اُنہیں مدح سرائی پسند نہ تھی اور کوئی پُرانا ذکر چھڑتا تو کہتے کہ تم سب بہت اچھے تھے۔

صلاح الدین صدیقی صاحب کتنے اچھے منتظم اور وضع دار انسان تھے، اس کا اندازہ اس دفتری واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ 

ایک مرتبہ ہم دو ساتھیوں کے درمیان کچھ تلخی ہوئی تو کسی نے اس کی اطلاع انہیں بھی دی۔ میں معمول کے مطابق صُبح اُن کے کمرے میں گیا تو وہ حسبِ معمول اخبار بینی میں مصروف تھے۔ اُن سے ملنے کے بعد میں اپنے کمرے میں آکر کام میں لگ گیا۔

ایک آدھ گھنٹہ گذرا تھا کہ انہوں نے انٹرکام پر مجھے اپنے دفتر میں بُلایا اور پوچھا کہ کل تمہاری فلاں سے چپقلش ہوئی تھی؟ میں نے مُسکراتے ہوئے موؤبانہ جواب دیا سر! ایسی کوئی بات نہیں ہوئی جو آپ کے علم میں لائی جاتی۔

وہ کہنے لگے کہ اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو تم صُبح مجھ سے ذکر کرچکے ہوتے۔اُس کے بعد اُنہوں نے دوسرے صاحب کو بُلایا نہ صرف سرزنش کی بلکہ مجھ سے معافی مانگنے کو بھی کہا۔

شام کو مجھ سے پوچھا کہ کیااُس نے تمہیں sorry کہا؟ میں نے ہنستے ہوئے موضوع بدل دیا مگر اُن کی 

بڑائی دل میں گھر کر گئی۔ کیا بڑے لوگ تھے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی