پنجاب میں چنے کی کاشت کارقبہ 22لاکھ اور مسور کی کاشت کارقبہ 30ہزار ایکڑ سے بھی تجاوز کرگیاہے جبکہ محکمہ زراعت نے کاشتکاروں کو دالوں کی ضروریات پوری کرنے کیلئے مزید رقبہ پر دالوں، چنے، مسورکی کاشت کی ہدایت کی ہے اورکہاہے کہ دالوں میں 25فیصد تک پروٹین پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے انہیں گوشت کا نعم البدل کہا جاتا ہے نیز گزشتہ چند سالوں سے دالوں کی قیمت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور حکومت ان دالوں کی برآمد پر کثیر رقم خرچ کرتی ہے۔مزید برآں گزشتہ سال ناموافق موسمی حالات،معمول سے زیادہ بارشوں، ژالہ باری،جراثیمی اور فنجائی سے پھیلنے والی بیماریوں کے باعث دالوں کی پیداوار میں کمی ہوئی ہے۔نظامت زرعی اطلاعات محکمہ زراعت کے مطابق حکومت پنجاب نے دالوں کے زیر کاشت رقبہ اورپیداوار میں اضافہ کے لیے کاشتکاروں کو گزشتہ سال رعائتی قیمت پرسیڈ ڈرل فراہم کی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ایرڈزون ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بھکر کے زرعی سائنسدانوں نے دیسی اور کابلی چنے کی زیادہ پیداواری صلاحیت کی حامل نئی اقسام متعارف کرائی ہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ کابلی چنے اور مسور کی ستمبر کاشتہ کماد اور دھان کے بعد آبپاش علاقوں میں کاشت کو فروغ دے کر اس کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال جھلساؤ، تنے کا گلاؤ اور جڑ کی سٹرن سے بھی چنے کی فصل متاثر ہوئی۔انہوں نے بتایا کہ دالوں کی آبپاش علاقوں میں کاشت کے فروغ کیلئے نئی اقسام کے بیج کی فراہمی اور تحفظ نباتات کیلئے تربیتی مہم شروع کی جارہی ہے۔انہوں نے کاشتکاروں کوہدایت کی کہ وہ جڑی بوٹیوں کی تلفی اورسنڈیوں کے تدارک کیلئے مناسب زہروں کے سپرے کی طرف خصوصی توجہ مرکوز کریں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی