وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ پیکا قانون سے آزادی اظہار رائے کا تحفظ ہوگا، پیکا قانون پر احتجاج کس بات کا ہے؟، اس کا مقصد فیک نیوز کا خاتمہ، سوشل میڈیا کے خطرات کا تدارک کرنا ہے،صحافی بتائیں کہ کس شق پر اعتراض ہے۔لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ پیکا ایکٹ میں دنیا کے بہترین طریقوں کو اپنایا گیا ہے، سوشل میڈیا کے خطرات کو روکنے کیلئے یہ ایک اچھا اقدام ہے، پیکا ایکٹ کا مقصد فیک نیوز کا خاتمہ اور سوشل میڈیا کے خطرات کا تدارک کرنا ہے۔ سمجھ نہیں آرہا پیکا قوانین پر اعتراض کس بات کا ہے، یہ قانون صحافیوں کے تحفظ کے لیے ہے۔انہوں نے کہا کیا فیک نیوز کو روکنے پر اعتراض ہے، کوئی ایک شق بتا دیں جس پر اعتراض ہے، ڈیجیٹل میڈیا پر کوئی چیک نہیں، کوئی ایڈیٹوریل کنٹرول نہیں۔ انکا کہنا تھا کہ ملک میں فیک نیوز، بلیک میلنگ اور ڈیپ فیک کے مسائل ہیں، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے قوانین اور ادارتی کنٹرول ہے، مگر ڈیجیٹل میڈیا پر کوئی کنٹرول نہیں، جس کا دل کرتا ہے کہتا ہے کہ فلاں واجب القتل ہے، لوگ صحافت کی آڑ میں صحافت کو بدنام کررہے ہیں، ان کے پاس کوئی تجربہ اور مہارت نہیں ہوتی۔
کچھ لوگ صحافت کی آڑ میں صحافت کو بدنام کرتے ہیں، خواتین کو ہراساں اور بلیک میول کیا جاتا ہے، لوگ خودکشیوں پر مجبور ہو جاتے ہیں، صحافی سمجھتے ہیں کہ حق تلفی ہو رہی ہے تو وہ ہائیکورٹ جا سکتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ آزادی اظہار رائے کے تحفظ کے لیے یہ قانون لایا گیا ہے۔ کیا ایف آئی اے میں اتنی گنجائش ہے کہ ان پر نظر رکھ سکے؟ اگر نہیں تو نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی قائم کی جارہی ہے تو اس میں غلط کیا ہے؟۔انہوں نے کہا کہ اس ایجنسی کے اوپر ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی بھی بنوائی جارہی ہے، اس اتھارٹی میں ایک صحافی اور ایک آئی ٹی ماہر ممبر ہوگا جو نجی شعبے سے ہوں گے، اس کے ساتھ ساتھ ٹریبونل بھی بنایا جارہا ہے اور اس میں بھی صحافی شامل ہوگا۔ ڈیجیٹل میڈیا پروٹیکشن اتھارٹی میں نجی شعبے سے نامزدگیاں کی جائیں گی، پریس کلب یا صحافتی تنظیموں سے منسلک صحافیوں کو اس میں شامل کیا جائے گا۔وزیراطلاعات کا کہنا تھا کہ اعتراض کیا جارہا ہے ٹریبونل کی اپیل سپریم کورٹ میں کیوں جائے؟ تمام ٹریبونلز کی اپیلیں سپریم کورٹ میں جاتی ہیں، 24 گھنٹے کے اندر اس ٹریبونل کو اپنا اسپیکنگ آرڈر پاس کرنا ہوگا جس کے خلاف سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ میں رٹ پیٹیشن دائر کی جاسکتی ہے، اس قانون میں ایک بھی شق متنازع نہیں۔
آگے مزید رولز اور ریگولیشنز پر بات ہوگی اور مشاورت ہوگی،صحافت کی آڑ میں سوشل میڈیا کو مادر پدر آزاد نہیں چھوڑا جا سکتا۔ صحافی بتائیں کہ کس شق پر اعتراض ہے۔زیراطلاعات نے مزید کہا کہ اداروں کے ملازمین قومی اثاثہ ہیں، ملازمین کی محنت، لگن اور مہارتیں ہی ادارے کی کامیابی کی بنیاد ہوتی ہیں۔کرپشن نے اداروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ حکومت اداروں کی بہتری اور انہیں منافع بخش بنانے کے لئے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔وزارت اطلاعات کے ماتحت اداروں کو منافع بخش بنانے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ صحافیوں کو درپیش مسائل کا حل اولین ترجیح ہے۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی، ریڈیو پاکستان اور اے پی پی قومی ادارے ہیں جو عوام کو معلومات کی فراہمی کی بنیادی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ملکی نظریاتی سرحدوں کے محافظ بھی ہیں۔ موجودہ دور جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ ہمیں دنیا کا مقابلہ کرنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کو اپنانا ہوگا۔ تمام اداروں میں اصلاحات لا رہے ہیں، کسی کو اصلاحات میں رکاوٹ نہیں بننے دیںگے، میرٹ اور شفافیت کو یقینی بنائیں گے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی