سابق وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی سے اختلاف کرتا ہوں کیونکہ سیاستدانوں کو مذاکرات کے دروازے کھلے رکھنے چاہئیں، معیشت میں تھوڑی بہتری آئی ہے لیکن سیاسی عدم استحکام کی تلوار لٹک رہی ہے، اگرسیاسی استحکام نہ آیا تو معاشی اشاریوں میں پھر تنزلی آسکتی ہے، اس وقت دونوں طرف ٹکرا ئوکی کیفیت ہے، اگر عوام کے منتخب نمائندے حکومت چلا رہے ہوتے تو موجودہ ہیجان نہ ہوتا۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ خطرات کسی ایک شخص پارٹی یا ادارے کیلئے نہیں بلکہ پورے ملک کیلئے شدید خطرات ہیں، خواجہ آصف کی باتوں سے لگ رہا کہ ہم کسی بہتری یا حل کی طرف نہیں جانے والے، تحریک عدم اعتماد کے بعد اگلا ڈیڑھ سال پاکستان کی تاریخ کا معیشت کے حوالے سے بدترین دور گزرا ، اس عرصے جیسی افراط زر کسی دور میں نہیں دیکھی گئی، کبھی 75سالوں میں نہیں دیکھا کہ کوئی کورونا ،سیلاب جنگ آفت نہیں تھی پھر بھی معیشت سکڑ گئی ۔اس مشکل وقت سے تھوڑی بہتری آئی ہے، لیکن بہتری پرسیاسی عدم استحکام کی تلوار لٹک رہی ہے، اگر استحکام نہ آیا تو پھر تنزلی آسکتی ہے۔
اس وقت دونوں طرف ٹکرا ئوکی کیفیت ہے، حکومت کے پاس ایک طاقت ہے دوسری طرف پی ٹی آئی کے پاس عوام کی طاقت ہے۔اگر عوام کے منتخب نمائندے حکومت چلا رہے ہوتے تو ہیجان نہ ہوتا، پھر جتنی مرضی پی ٹی آئی تقاریر کرتی، ہیجان کی وجہ اسمبلی اور حکومت میں بیٹھے لوگوں کی عوام میں جڑیں کمزور ہیں، حکومت کے پاس طاقت ہے لیکن فیصلے کرنے کا اخلاقی جواز نہیں ہے، پی ٹی آئی سے اختلاف کرتا ہوں کیونکہ سیاستدانوں کو مذاکرات کے دروازے کھلے رکھنے چاہئیں، شدید مخالفت کے باوجود اگر سیاستدان آپس میں بات نہ کریں اور جمہوریت چلتی رہے یہ ممکن نہیں ہے۔پی ٹی آئی نے اگر حل تلاش کرنا ہے، جو جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی جانب نہیں دیکھنا۔عمران خان نے حکومت کو بہت بڑی آفر دی تھی کہ نئے الیکشن کروا دیں، لیکن حکومت نے اس جانب توجہ نہیں دی، جبکہ عمران خان کو کہنا چاہیے تھا فارم 45دیکھو ، ہم جیتے ہیں ہمیں حکومت دو، اب بھی بہتر ہے حکومت اور پی ٹی آئی کو آپس میں نئے الیکشن کیلئے بیٹھنا چاہیئے اور حل نکالنا چاہیے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی