i پاکستان

پاکستان میں ذیابیطس کا شکار 68 فیصد ملازمین کو دفاتر میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے، تحقیقتازترین

November 12, 2025

پاکستان میں ذیابطیس کے ساتھ زندگی گزارنے والے دو تہائی سے زائد ملازمین کو اپنی صحت کی حالت کی وجہ سے ملازمت کی جگہ پر منفی سلوک کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ نصف سے زیادہ نے امتیازی سلوک اور بدنامی کے خوف سے اپنی نوکری چھوڑنے پر بھی غور کیا۔میڈیارپورٹ کے مطابق یہ بات عالمی ذیابیطس فیڈریشن (آئی ڈی ایف) کی ایک نئی تحقیق میں سامنے آئی ہے ۔ آئی ڈی ایف کے سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں ذیابطیس کا شکار 68 فیصد ملازمین نے کام کی جگہوں پر منفی تجربات کی اطلاع دی، جو تمام شریک ممالک میں سب سے زیادہ شرح ہے، اس کے بعد بھارت میں 55 فیصد اور امریکا میں 42 فیصد نے اسی نوعیت کے تجربات رپورٹ کئے ۔مزید 58 فیصد ملازمین نے کہا کہ انہوں نے اس بات پر غور کیا کہ وہ نوکری چھوڑ دیں کیونکہ ذیابطیس کے مریضوں کے ساتھ دفتر میں جو برتا کیا جاتا ہے، وہ ناقابلِ برداشت ہے۔آئی ڈی ایف کی نائب صدر اور نیشنل ایسوسی ایشن آف ڈائیبیٹیز ایجوکیٹرز آف پاکستان (این اے ڈی ای پی) کی صدر ارم غفور نے نتائج کو انتہائی تشویش ناک قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ یہ ناقابلِ دفاع ہے کہ ذیابطیس کے مریضوں کو اپنے دفاترمیں بدنامی، تنہائی اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔تحقیق کے مطابق، ٹائپ 1 ذیابطیس کے مریض ملازمین کو زیادہ تعصب کا سامنا ہوتا ہے، جن میں تقریبا 72 فیصد نے منفی تجربات بتائے، جب کہ ٹائپ 2 ذیابطیس والے ملازمین میں یہ شرح 41 فیصد رہی، نصف سے زائد (52 فیصد) نے بتایا کہ انہیں ذیابطیس کے انتظام کے لیے مختصر وقفے یا وقت کی اجازت نہیں دی گئی۔

مطالعے میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ ذیابطیس سے جڑی بدنامی ملازمین کی پیشہ ورانہ ترقی پر براہِ راست اثر ڈالتی ہے، تقریبا 37 فیصد جواب دہندگان نے بتایا کہ انہیں اپنی حالت کی وجہ سے تربیت یا کیریئر ڈیولپمنٹ کے مواقع سے محروم رکھا گیا۔رپورٹ کے مطابق خوف اور خاموشی نے اس مسئلے کو مزید سنگین بنا دیا ہے، کیونکہ بیشتر ملازمین اپنی بیماری کا ذکر کرنے سے گریز کرتے ہیں،ہر 20 میں سے صرف ایک ملازم نے اپنے آجر کو اپنی تشخیص سے آگاہ کیا، ان میں سے نصف نے اعتراف کیا کہ انہوں نے امتیازی سلوک کے خوف سے یہ بات چھپائی، جب کہ تقریبا ایک تہائی کو اندیشہ تھا کہ ان کی ترقی کے مواقع محدود ہو جائیں گے۔تحقیق میں بتایا گیا کہ بیشتر ملازمین ادارہ جاتی مدد کے بجائے غیر رسمی طور پر اپنے چند قریبی ساتھیوں پر انحصار کرتے ہیں، تقریبا 46 فیصد نے کہا کہ انہوں نے صرف ایک قابلِ اعتماد ساتھی کو اپنی بیماری سے آگاہ کیا، جب کہ صرف 26 فیصد نے یہ بات چند افراد تک محدود رکھی۔آئی ڈی ایف کے مطابق، یہ ہچکچاہٹ اس بات کی علامت ہے کہ کام کی جگہوں پر نظام پر اعتماد کی کمی ہے اور ایسے جامع ماحول کی ضرورت ہے جہاں صحت کے مسائل کو کھل کر بیان کیا جا سکے۔

تحقیق میں انکشاف ہوا کہ تقریبا 22 فیصد ملازمین کو دفتر میں انسولین لگانے میں جھجک محسوس ہوتی ہے، جب کہ 16 فیصد اپنے خون میں شوگر لیول چیک کرنے میں بھی بیچینی محسوس کرتے ہیں، مناسب سہولتوں یا آجر کی سمجھ بوجھ کے بغیر روزمرہ کے یہ طبی تقاضے تنا اور کم پیداوار کا باعث بن سکتے ہیں۔ارم غفور نے کہا کہ کسی کو بھی اپنی بیماری چھپانے پر مجبور نہیں ہونا چاہیے، صرف اس خوف سے کہ اس کے ساتھ مختلف سلوک کیا جائے گا یا ترقی کے مواقع چھین لئے جائیں گے۔انہوں نے زور دیا کہ ذیابطیس کے ساتھ زندگی گزارنے کیلئے مستقل نگہداشت درکار ہوتی ہے، اور اداروں کو اس کے جسمانی اور ذہنی اثرات کو تسلیم کرنا چاہیے، معمولی اقدامات جیسے لچکدار اوقات، پرائیویسی میں گلوکوز چیک کرنے کی اجازت، اور نگران افسران کی سمجھ داری، بہت بڑا فرق پیدا کر سکتی ہے۔آئی ڈی ایف کے مطابق پاکستان میں 3 کروڑ 30 لاکھ افراد، جو ملک کی مجموعی آبادی کا 26.7 فیصد ہیں، ذیابطیس میں مبتلا ہیں، یہ تعداد 2045 تک بڑھ کر 6 کروڑ 20 لاکھ تک پہنچنے کی توقع ہے، اس کے علاوہ ملک میں 89 لاکھ افراد ایسے ہیں جن میں ذیابطیس کی تشخیص ابھی باقی ہے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی