چین نے زرعی شعبے میں نمایاں ترقی کی ہے ، پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک چین سے سیکھ سکتے ہیں ،چینی ماہرین پاکستانی کاشتکاروں اور زرعی محققین کے ساتھ مل کر گرمی اور خشک سالی کیخلاف مزاحم اقسام تیار کر کر رہے ہیں، پاکستانی کسانوں کو جدید ترین زرعی طریقوں کی تربیت دی جا رہی ہے، اس سے وہ آزادانہ طور پر ان تکنیکوں کو لاگو کر سکیں گے اور اپنی پیداوار کو بہتر بنا سکیں گے۔ گوادر پرو کے مطابق چین کا زرعی ماحولیاتی نظام اس بات کی ایک اہم مثال ہے کہ ہم ماحولیاتی تحفظ کے ساتھ زرعی پیداوار کو کس طرح متوازن کرسکتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی اور پائیدار زراعت کے ماہر پاکستانی ڈاکٹر عدنان ارشد نے کہا کہ چین نے اس شعبے میں نمایاں پیش رفت کی ہے اور اس نے متعدد جدید تکنیک اور حکمت عملی تیار کی ہے جو پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں بھی نقل کی جاسکتی ہیں۔ گوادر پرو کے مطابق ڈاکٹر عدنان نے سن وے یونیورسٹی میں منعقد ہونے والے پلینیٹری ہیلتھ سالانہ اجلاس(پی ایچ اے ایم) ملائیشیا 2024 میں اسٹیج پر شرکت کی اور چین کے آب و ہوا سے متعلق اسمارٹ زرعی ماحولیاتی نظام کے بارے میں اپنی بصیرت کا تبادلہ کیا۔ پوڈا پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق تعلیمی پروگرام کے ڈائریکٹر اور چین کی لانچو یونیورسٹی کے محقق کی حیثیت سے انہوں نے اپنے خیالات سے سامعین کو مسحور کر دیا کہ کس طرح یہ نظام سیاروں کے تحفظ کے لیے عالمی کوششوں میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ گوادر پرو کے مطابق اس موقع پر اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل اور یو این ڈی پی کے ایسوسی ایٹ ایڈمنسٹریٹر سو ہولیانگ نے کلیدی خطاب کرتے ہوئے دنیا پر زور دیا کہ وہ 21 ویں صدی کی ضروریات کے مطابق عالمی قیادت کا ایک نیا ماڈل اپنائے، جس میں 63 ممالک کے 1069 ماحولیاتی ماہرین، پالیسی سازوں اور وکلا نے شرکت کی جو سیاروں کی صحت کو درپیش فوری چیلنجز پر تبادلہ خیال کرنے کے لئے ملائیشیا میں جمع ہوئے تھے۔ گوادر پرو کے مطابق چونکہ دنیا موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے بڑھتے ہوئے چیلنجوں سے نبرد آزما ہے ، پائیدار زرعی طریقوں کی ضرورت سب سے زیادہ ہوگئی ہے۔
آب و ہوا سے متعلق اسمارٹ پائیدار زرعی ماحولیاتی نظام ایک تبدیلی لانے والے نقطہ نظر کی نمائندگی کرتے ہیں جو نہ صرف زرعی پیداوار میں اضافہ کرتا ہے بلکہ آب و ہوا کی تبدیلی، کیمیائی کھادوں کے اثرات کو کم کرنے، نامیاتی کاشتکاری کو فروغ دینے اور مٹی کی حفاظت میں کردار ادا کرکے سیارے کی صحت کی حفاظت بھی کرتا ہے۔ گوادر پرو کے مطابق ڈاکٹر عدنان نے کہا پائیدار زرعی ماحولیاتی نظام کے بارے میں چین کا نقطہ نظر صرف پیداوار میں اضافے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ ماحول کے تحفظ اور ہمارے سیارے کی صحت کے تحفظ کے بارے میں بھی ہے۔ آب و ہوا سے متعلق اسمارٹ طریقوں کو اپناکر، چین اپنی وسیع آبادی کے لئے غذائی تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے اپنے کاربن کے اخراج کو کم کرنے، آبی وسائل کو بچانے اور مٹی کی صحت کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔گوادر پرو کے مطابق آب و ہوا سے متعلق اقدامات کے لیے عالمی دبا وکے درمیان چین نے اپنے قومی سطح پر طے شدہ کنٹری بیوشن (این ڈی سی) کے لیے پرعزم اہداف کا اعلان کیا ہے۔ ملک 2030 تک کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو عروج پر پہنچانے اور 2060 تک کاربن غیر جانبداری حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو ماحولیاتی استحکام کے لئے اپنے عزم میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ جیسا کہ دنیا اپنے کاربن غیر جانبداری کے اہداف کی طرف چین کی پیش رفت کو دیکھ رہی ہے، اسے امید ہے کہ دوسرے ممالک بھی اسی کی پیروی کریں گے اور اسی طرح کی پائیدار زرعی حکمت عملی کو اپنائیں گے۔
گوادر پرو کے مطابق چین، زرعی جدیدکاری میں اپنے وسیع تجربے کے ساتھ، اس کوشش میں پاکستان کو اہم مدد فراہم کر رہا ہے. چینی ماہرین پاکستانی کاشتکاروں اور زرعی محققین کے ساتھ مل کر فصلوں کی ایسی اقسام تیار کرنے پر کام کر رہے ہیں جو خشک سالی، گرمی کے دبا اور آب و ہوا سے متعلق دیگر چیلنجوں کے لیے لچک دار ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی کسانوں کو جدید ترین زرعی طریقوں کی تربیت دی جا رہی ہے، جس سے وہ آزادانہ طور پر ان تکنیکوں کو لاگو کر سکیں گے اور اپنی پیداوار کو بہتر بنا سکیں گے۔ گوادر پرو کے مطابق ڈاکٹر عدنان کی پریزنٹیشن میں موسمیاتی تبدیلی، ماحولیاتی انحطاط اور صحت عامہ کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مربوط کوششوں کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ پوڈا پاکستان، چینی اداروں اور پلینیٹری ہیلتھ الائنس (پی ایچ اے) کے درمیان بین التنظیمی تعاون کے لئے ایک بہترین موقع ہوگا تاکہ ماحول دوست نظام کو فروغ دیا جاسکے اور جدید حل تیار کیے جاسکیں جو وسائل اور مہارت کو جمع کرکے کرہ ارض پر انسانی سرگرمیوں کے منفی اثرات کو کم کرسکیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی