لاپتا افراد کیس میں وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور طلبی پر پشاور ہائیکورٹ میں پیش ہوگئے اور شہریوں کو جیل سے رہائی کے فورا بعد دوبارہ گرفتار کرنے کے خلاف قانون سازی کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ ہائی کورٹ میں لاپتہ افراد کیس کی سماعت ہوئی۔ درخواست گزار نے کہا کہ میرے بیٹے کو پولیس نے اٹھایا ہے، اسے عدالت سے ضمانت ملی، لیکن پشاور جیل سے باہر نکلتے ہی سی ٹی ڈی نے اٹھالیا۔ چیف جسٹس ہائی کورٹ اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ جب ایک کیس میں ضمانت ہوجائے تو پھر کیسے کسی کو جیل کے باہر سے گرفتار کرتے ہیں، یہ اس عدالت کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے، وزیراعلی کو بلا لیں، اسد قیصر کیس میں عدالت قرار دے چکی ہے، ایک کیس میں ضمانت ہونے کے بعد دوسرے درج مقدمے میں گرفتار نہیں کرسکتے، ایسے اور بھی کیسز ہیں جن میں ضمانت ہونے کے بعد لوگوں کو دوبارہ گرفتار کیا جاتا ہے۔ عدالت نے ایڈیشنل ایس ایچ او سے پوچھا کیا آپ نے بندہ اٹھایا ہے؟ جس پر ایڈیشنل ایس ایچ او نے جواب دیا کہ میں حلف اٹھاتا ہوں کہ میں وہاں نہیں تھا۔ جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ لوگوں کو ایسے اٹھایا جاتا ہے، دنیا کے کسی ملک میں ایسا نہیں ہوتا کہ ایسے لوگوں کو اٹھایا جاتا ہے، اور پولیس کہے کہ ہمیں علم نہیں ہے، پولیس کو علم نہہوں ایسا ہو ہی نہیں سکتا، پولیس ایمانداری کا مظاہرہ کرے تو اس کے خلاف کچھ نہیں ہوسکتا، زیادہ سے زیادہ ان کو تبادلہ کیا جائے گا۔ عدالت نے وزیراعلی خیبرپختونخوا کو طلب کرتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا۔ وقفے کے بعد سماعت ہوئی تو وزیر اعلی خیبرپختونخوا پشاور ہائیکورٹ میں پیش ہوگئے۔ وزیراعلی نے عدالت میں بیان دیا کہ میں خود اس کے خلاف ہوں، ہم خود اس سے متاثر ہیں، اسی لیے پولیس ایکٹ میں تبدیلی لا رہے ہیں، ہم قانون سازی کے لئے کمیٹی بںا رہے ہیں ، عدالت کوئی فوکل پرسنز مقرر کردے۔ چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ جو بھی کرنا ہے قانون کے مطابق کریں۔ عدالت نے اس حوالے سے حکومت کو 21 اکتوبر تک کا وقت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی