چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ ہوسکتا ہے ہم سے بھی کچھ فیصلے غلط ہوئے ہوں، کاغذ کے ٹکڑے پر درج تحریر سے اندازہ لگاتے ہیں، شکر ہے میری اہلیہ آج یہاں موجود ہیں، میں کہتا ہوں کہ لوگ میری تعریف کرتے ہیں لیکن اہلیہ نہیں مانتیں۔ان خیالات کااظہار انہوں نے جمعہ کے روز ریٹائرمنٹ کے آخری روز اپنے اعزاز میں سپریم کورٹ میں دئیے گئے الوداعی فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔الوداعی ریفرنس کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت سے کیا گیا ، جس کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی آئین و قانون ،جمہوریت اور احتساب کے عمل میں غیر متزلزل رہے۔ چیف جسٹس بننے سے قبل بھی قاضی صاحب کا بطور وکیل نمایاں اور کامیاب کیرئیر رہا۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس ہمیشہ بنیادی حقوق آزادی اظہار اور خواتین کے حقوق کے علمبردار رہے۔ انہوں نے متعدد تاریخی فیصلے دیے۔ فیض آباد دھرنا کیس میں قانون کے مطابق اور پرامن احتجاج کا تاریخی فیصلہ دیا ۔ چیف جسٹس نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار کو بھی واضح کیا ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیف جسٹس بنتے ہی فل کورٹ ریفرنس بلایا گیا۔ چیف جسٹس نے مقدمات کو براہ راست نشر کرنے کا فیصلہ کیا۔ قاضی فائز عیسی نے چیف جسٹس کے اختیارات کو کمیٹی کے سپرد کرنے جیسے اہم اقدامات اور فیصلے دیے۔ چیف جسٹس کا عام انتخابات کے انعقاد میں اہم کردار ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو جمہوریت کی بقا کے لیے انتخابات پر راضی کیا ۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے والد پاکستان کے بانیان میں سے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ نسرین کیترانی اور حکومت بلوچستان کے درمیان 2012 کے مقدمے میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 19اے میں درج معلومات کے بنیادی حق پر زور دیا اور جواب دہندگان کو ہدایت کی کہ وہ صوبے کے تمام اسکولوں کو چلانے کو یقینی بنائیں اور ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ اساتذہ اور اسکول تعلیم فراہم کریں جس کی متعلقہ حکومتی افسران نگرانی کریں۔
انہوں نے کہا کہ 2010 میں صوبے کے دو مقدمات میں چیف جسٹس نے خواتین کی اپنی مرضی کے مطابق شادی کے حق کو برقرار رکھا جبکہ اور بلوچستان ہائی کورٹ میں پانچ سال تک بطور چیف جسٹس خدمات انجام دینے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسی کا تقرر عدالت عظمی میں کردیا گیا جہاں انہوں نے ایک دہائی تک خدمات انجام دیں۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے اہم فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہاکہ متعدد مقدمات میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے جنگلی حیات کے تحفظ پر زور دیا اور اس سلسلے میں اسلامی تعلیمات کا حوالہ دیا جبکہ سپریم کورٹ میں بھی متعدد مقدمات میں وراثت میں خواتین کے حق کا تحفظ کیا۔ان کا کہنا تھا کہ مشہور زمانہ فیض آباد دھرنا کے فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے اجتماع اور احتجاج کے حق اور ان معقول پابندیوں پر تفصیلی بحث کی، اہم بات یہ ہے کہ جسٹس عیسی نے نوٹ کیا کہ احتجاج کا حق صرف اس حد تک محدود ہے جس میں آزادانہ نقل و حرکت کے حق سمیت دوسروں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔نامزد چیف جسٹس یحیی آفریدی نے اس موپع پر اپنے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت میرے اندر ملے جلے رجحانات ہیں۔ ایک طرف چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی کی ریٹائرمنٹ پر دل اداس ہے تو دوسری طرف خوشی بھی ہے کہ قاضی فائز عیسی اچھی صحت کے ساتھ ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔ جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی کو بہت اچھا انسان پایا۔ وہ بہت نرم مزاج انسان ہیں۔ اگر آپ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی کو اکسائیں گے تو پھر ان کے غصے سے بچنا مشکل ہے۔ میں نے بھی ایک مرتبہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی کے غصے کا سامنا کیا ہے۔ میرا یہ تجربہ کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا۔ اس موقع پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگے جب کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نامزد چیف جسٹس یحیی آفریدی کے خطاب پر مسکراتے رہے۔ نامزد چیف جسٹس نے مزید کہا کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے خواتین کے وراثتی جائیداد میں حق سے متعلق بہترین فیصلے کیے۔
ججز میں اختلاف رائے کو چیف جسٹس پاکستان قاضی نے تحمل کیساتھ سنا۔ چیف جسٹس پاکستان نے حکومتی خرچ پر ظہرانہ لینے سے انکار کیا۔ ظہرانے کے خرچ کا سارا بوجھ مجھ پر پڑا۔میں نے اپنے کچھ ساتھی ججز سے کہا آپ بھی شیئر کریں۔ ایسے دور دراز کے اضلاع بھی ہیں جو توجہ کے حقدار ہیں۔ اختیارات کی تقسیم کے اصولوں پر عمل ہوگا۔ الوداعی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے تمام شرکا بالخصوص نامزد چیف جسٹس یحیی آفریدی اور دیگر ساتھی ججز، اٹارنی جنرل منصور اعوان، پاکستان بار کونسل کے نائب چیئرمین فاروق ایچ نائیک اور صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن شہزاد شوکت کا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے اللہ تعالی کا شکریہ جنہوں نے مناسب سمجھا کہ میں یہ منصب سنبھالوں، عوام کا شکریہ اور چوہدری افتخار صاحب کا شکریہ جنہوں نے میرا بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ انتخاب کیا۔چیف جسٹس نے کہا مجھے کسی سے سیکھنے کو نہیں ملا، وکیلوں نے مجھے بہت سکھایا، بلوچستان میں ایک غیر فعال عدالت عالیہ کا کام شروع ہوا، بلوچستان میں بہت ساری چیزیں کیں۔انہوں نے کہا کہ میرے والد بلوچستان کے پہلے بیرسٹر تھے، میری والدہ نے مجھے نصیحت کی کہ ڈگری کر لو پھر جو مرضی کر لینا، تعلیم کے فورا بعد میری شادی بھی ہو گئی، پیشہ ورانہ اور شادی شدہ زندگی کو 42 سال ہو گئے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ مجھے ایک دفعہ کال آئی کہ چیف جسٹس بلا رہے ہیں، میں انگریزی اخبار میں لکھ رہا تھا، مجھے لگا کہ چیف جسٹس نے ڈانٹنے کے لیے بلایا ہے، مگر چیف جسٹس نے کہا کہ بلوچستان میں کوئی جج نہیں، آپ چیف جسٹس بنیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ چیف جسٹس بلوچستان بننے کے بعد زندگی بدل گئی، بلوچستان میں جو کام کیے ان کا لوگوں کو معلوم ہے، بلوچستان میں جو کیا اس میں اہلیہ کا کردار تھا لیکن اہلیہ نے کہا کہ ان کا نام نہیں لایا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے ہر ڈسٹرکٹ میں اہلیہ کے ساتھ گیا، دو لوگ میرے ساتھ آئے، پروفیسر ڈاکٹر مشتاق بطور پرائیویٹ سیکریٹری اور محمد صادق بلوچستان سے ساتھ آئے، جزیلا اسلم کا بطور رجسٹرار انتخاب کرنا اچھا فیصلہ تھا، کبھی کاز لسٹ بنانے میں دخل نہیں کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ایک ٹاک شو میں دیکھا جس میں کہا جارہا تھا چیف جسٹس نے یہ فیصلہ دیا اور فلاں جج یہ فیصلہ دے گا، فل کورٹ میں سب ججز موجود تھے سب کے بارے میں اندازہ لگایا جارہا تھا، مگر جسٹس یحیی آفریدی کا کہا گیا کہ ان کا کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کیا فیصلہ دیں گے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ مردوں کو خطرہ ہونا چاہیے کہ خواتین آگے نکل گئی ہیں، مرد اپنی کارکردگی اچھی کریں ایسا نہ ہو کہ خواتین ہر سیٹ پر آ جائیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ میرے گارڈ فیاض ہمیشہ میرے ساتھ رہے ہیں، وکیل اور جج کی اہمیت بتانا چاہتا ہوں، دونوں کا کردار اہم ہے، ہو سکتا ہے بے پناہ فیصلے غلط کیے ہوں، ایک کاغذ ایک پارٹی کو فائدہ ایک کے خلاف ہوتاہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ سچ کیا ہے صرف اللہ تعالی ہی جانتے ہیں، انصاف دینا ہمارا فرض ہے، میری آزادی میں کچھ گھنٹے رہ گئے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اپنی ذاتی زندگی کے حوالے سے چیزوں کو ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پشین میں رہنے والی میری دادی نے آج سے 100 سال قبل اپنے تینوں بیٹوں کو اس وقت کی بہترین تعلیم دلانے کا فیصلہ کیا، ان کے سب سے بڑے بیٹے قاضی موسی ایکسیٹر کالج گئے، اس کے بعد میرے والد قاضی محمد عیسی انگلستان بار کی ڈگری لینے گئے اور سب سے چھوٹے بیٹے قاضی اسمعیل پائلٹ بنے۔ان کا کہنا تھا کہ میرے اس وکالت کے پیشے اور اپنی اہلیہ سے وابستگی کو 42سال ہو چکے ہیں جنہوں نے میرا ہر اچھے برے وقت میں ساتھ دیا، اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے رجسٹرار کے ذریعے مجھے بلایا، مجھے لگا انہوں نے ڈانٹ ڈپٹ کرنے کے لیے بلایا ہے لیکن انہوں نے کہا کہ آپ بلوچستان سنبھالیں کیونکہ وہاں کوئی جج نہیں رہا، میری زندگی میں میری بیوی کا ویٹو پاور ہے اور ان کی رضامندی کے بعد میں بلوچستان آ گیا اور راتوں رات میری زندگی بدل گئی۔
انہوں نے کہا کہ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے بچے ہمیں سکھاتے ہیں، ایک دن صفیہ(نواسی ) نے مجھے کہا کہ میرے دوست مجھ سے بہت ناراض ہیں کہ آپ نے مرگلہ ہل کی پہاڑی پر ریسٹورنٹس کو مسمار کرنے کا حکم دیا ہے، میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی صفیہ نے کہا کہ میں نے دوستوں سے کہا کہ اللہ تعالی نے جانور اور پرندے بھی بنائے ہیں، ان کا بھی تو ہمیں خیال رکھنا ہے، یہ تو ان کا گھر ہے اور ہم ان کے گھر میں داخل ہو گئے، ماحولیات بہت اہم موضوع ہے اور ہم کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔انہوں نے اپنے ساتھ کام کرنے والے عملے اور ساتھیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے وکیل اور جج کی اہمیت پر بھی گفتگو کی۔ان کا کہنا تھا کہ ہم کیس سنتے ہیں تو کاغذ پر کچھ فقرے لکھے ہوتے ہیں، اندازہ لگانا ہوتا ہے کہ کہاں سچ ہے اور کہاں جھوٹ ہے، ہو سکتا کہ ہم نے بے پناہ غلط فیصلے کیے ہوں کیونکہ کاغذ کے ٹکڑوں پر جو لکھا گیا ہے وہ ایک پارٹی کو فائدہ دیتا ہے اور دوسرے کو نہیں، سچ کیا ہے وہ تو اوپر والا جانتا ہے لیکن ہم کاغذوں اور قانون پر چلتے ہیں کہ جو کاغذ کی بنیاد پر کیس ثابت کر سکے۔چیف جسٹس کے خطاب کے اختتام کے ساتھ ہی فل کورٹ ریفرنس ختم ہو گیا۔ الوداعی ریفرنس میں جسٹس یحیی آفریدی ،جسٹس امین الدین خان ،جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر ،جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید، جسٹس مسرت ہلالی ،جسٹس عرفان سعادت خان ،جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال حسن اور جسٹس عقیل عباسی شریک ہوئے ۔ ایڈہاک ججز جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس مظہر عالم میاں کے علاوہ ۔ شریعت اپیلیٹ بنچ کے دو عالم ججز بھی فل کورٹ ریفرنس میں موجود ہیں۔ الوداعی ریفرنس میں 12 مستقل جج صاحبان، 2 ایڈہاک ججز اور 2 عالم ججز شریک ہوئے جبکہ مجموعی طور پر 5 ججز شریک نہیں ہوئے۔ ان میں جسٹس منیب اختر ،جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس شہزاد احمد ملک شریک نہیں ہوئے جب کہ جسٹس منصور علی شاہ عمرے کی ادائیگی کے لیے بیرون ملک ہیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی