نائب وزیر اعظم ووزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ملک میں آج ہونیوالی شہادتیں سرحد پار بھاگنے والے دہشتگردوں کو واپسی کی اجازت دینے اور قاتلوں کو جیلوں سے چھوڑنے کا نتیجہ ہے، فتنہ الخوارج افغان سرزمین سے پاکستان پر کارروائیوں میں مصروف ہیں، 2017 میں میری بات مانی گئی ہوتی تو پاکستان 5 سال کشکول لے کر نہ پھرتا اور پاکستان کو دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرہ نہ ہوتا، پاکستان میں اتنی لچک موجود ہے لیکن ہم خود اپنے دشمن بن جاتے ہیں، پاکستان او آئی سی کو اپنا بنیادی حلقہ سمجھتا ہے، فلسطین کا مسئلہ پاکستان اور مسلم دنیا دونوں کے لیے اولین ترجیح ہے،پاکستان او آئی سی کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، فلسطین کے دو ریاستی کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ان خیالات کااظہار انہوں نینیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز میں او آئی سی اجلاس اور پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ غزہ میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئیں،غزہ میں سیز فائر پر عملدرآمد کیلئے ڈپلومیٹک راستے اپنانا ہوں گے،غزہ کی بحالی کیلئے سب کو اپنا کردارادا کرنا ہوگا، اسرائیل لبنان میں مسلسل مسلح کارروائیاں جاری رکھیہوئے ہے، مغربی کنارے میں اسرائیلی جارحیت کو روکنے کیلئے اقدامات ضروری ہیں۔نائب وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مسئلہ فلسطین کا واحد حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا چاہیے، غزہ کے حوالے سے اسرائیل سیز فائر معاہدے کی پاسداری یقینی بنائے، غزہ کی جنگ نے فلسطینی عوام کے لیے تبا ہ کن نتائج پیدا کیے ہیں، فلسطین کے مفادات اورعرب ومسلم امہ کے مقاصد کو محفوظ رکھنے کیلئے کام کرنا چاہیے، پاکستان غزہ میں جنگ بندی معاہدے کیتحفظ کیلئے سفارتکاری کی حمایت کرتا ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے دوسرے وتیسرے مرحلے کے نفاذ کیلئے سفارتکاری کی حمایت کرتے ہیں، ہمیں غزہ کے عوام کو مناسب انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے، فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کی تجاویز کی سختی سے مخالفت کرنی چاہیے، مغربی کنارے میں اسرائیل کی پر تشدد،بیدخلی کی مہم کو ختم کرنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ ہمیں دوریاستی حل کے حصول کے لیے ٹھوس اقدامات کا آغاز کرنے چاہئیں، سعودی عرب کے جاری کردہ بیان کی توثیق کرنی چاہیے، سعودی عرب فلسطینی ریاست کے قیام کو لازمی شرط قراردیتا ہے، او آئی سی کو اجتماعی طور پر اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے لیے دبا ڈالنا چاہیے، ہمیں دوریاستی حل کو ناگزیر بنانا چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ مشرق وسطی میں ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے، فتنہ الخوارج افغان سرزمین سے پاکستان پر کارروائیوں میں مصروف ہیں پاکستان ہر قسم کی دہشتگردی کی مذمت کرتا ہے، پاکستان نومبر میں فرانس اورامریکہ کی ثالثی میں معاہدے کا خیر مقدم کرتا ہے۔ نائب وزیراعظم نے کہا کہ ایل او سی عبور کرنے اور آزاد کشمیر پر قبضے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، بھارت مقبوضہ کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقوں کو ہندو اکثریتی علاقیمیں تبدیل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان سے پاکستان میں مسلسل دراندازی ہورہی ہے، دہشتگرد افغان سرزمین کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں، افغان عبوری حکومت اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکے۔
قبل ازیں نیو یارک میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان کی معیشت درست سمت پر گامزن ہے، مہنگائی کی شرح میں نمایاں کمی ہوئی ہے، پالیسی ریٹ 22 فیصد سے کم ہوکر 12 فیصد پر آچکا ہے اور پالیسی ریٹ میں کمی سے معاشی استحکام پیدا ہورہا ہے جب کہ اقتصادی اشاریے بہتر ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہرماہ ہر سیاسی جماعت کہا کرتی تھی کہ ملک ڈیفالٹ کرجائیگا، ہم نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا، اب پاکستان کی معاشی بہتری کا دنیا اعتراف کررہی ہے، زبوں حال معیشت کو دوبارہ مستحکم کیا، مشکل حالات سے نکل کر معیشت کو دوبارہ مستحکم کرنا آسان کام نہیں ہوتا۔ نائب وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پوری دنیا کو مختلف مسائل کا سامنا ہے، عالمی مسائل پر بات چیت اور غور و فکر کیلیے جمع ہوئے ہیں، جب بھی امریکا کا دورہ کیا تو پاکستانی کمیونٹی سے ملاقات کو ترجیح دی۔ اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ ملک میں آج ہونے والی شہادتیں سرحد پار بھاگنے والے دہشتگردوں کو واپسی کی اجازت دینے اور قاتلوں کو جیلوں سے چھوڑنے کا نتیجہ ہے، دہشتگردی ختم ہوچکی تھی مگر اب دوبارہ سر اٹھارہی ہے، پچھلے 2 سالوں میں دہشتگردی کی لہر میں اضافہ دیکھنے میں آیا، ہمیں جائزہ لینا چاہیے کہ ایساکیوں ہورہا ہے، دہشتگردی کے باعث پاکستان کو معاشی لحاظ سے بہت زیادہ نقصان ہوا، چاہتے ہیں کہ آنے والی نسلوں کیلیے محفوظ اور ترقی یافتہ ملک چھوڑ کرجائیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سفارتی تعلقات کو دوبارہ بہتر کیا، پالیسی اور فیصلہ سازی صرف اور صرف ملک کی بہتری کے لیے ہونی چاہیے۔ اسحق ڈار نے کہا کہ جو ملک 2017 میں 3 سال بعد دنیا کی 24ویں معیشت بن گیا تھا وہ دیوالیہ ہونے جارہا تھا، ہم نے بے پناہ سیاسی سرمایہ گنوایا ہے مگر پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے۔
اسحق ڈار نے کہا کہ 2013 الیکشن سے پہلے پاکستان کو غیرمستحکم میکر اکنامک ملک قرار دیا گیا، الیکشن جیت کر آنے والی حکومت کو 6 سے 7 ماہ میں ڈیفالٹ ڈکلیئر کرنا تھا، کہا جارہا تھا پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں 12 سے 15 سال لگیں گے مگر الیکشن جیتنے کے بعد 3 سال کے قلیل عرصے میں میکرو اکنامک اشاریے ٹھیک ہوگئے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت آسمان کو چھوتی مہنگائی 3.6 فیصد پر آگئی، شرح سود دو ہندسوں سے 5 فیصد پر آگئی، بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم ہوگئی، دہشت گردی سے نجات کے لیے بھاری رقم خرچ کی گئی، ملک میں آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کیے گئے، ہم نے کراچی کی روشنیوں کو بھی بحال کیا، پاکستان نے پہلی مرتبہ 3 سال میں آئی ایم ایف کا پروگرام مکمل کیا، زرمبادلہ کے ذخائر بلند ترین سطح پر چلے گئے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ دہشت گردی ختم ہوگئی تھی مگر اب دوبارہ سر اٹھا چکی ہے، ہر ہفتے کئی فوجی جوانوں کے جنازے میں پڑھتا ہوں اور کئی جنازوں میں وزیراعظم خود جاتے ہیں، یہ کیوں ہوا؟ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے، آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد میں بڑے پیمانے پر دہشت گردوں کی ہلاکت اور فوجی جوانوں کی شہادت کے بعد دہشت گردوں کی بڑی تعداد نے ہمسایہ ملک میں پناہ لے لی اور ہمارے بعد والی حکومت سے سمجھوتا کرکے ٹی ٹی پی کے 30 سے 40 ہزار لوگ واپس آگئے اور سنگین جرائم پر جیلوں میں قید 100 سے زائد مجرمان کو ہم نے چھوڑ دیا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کیا کرتے ہیں اور اس کے کیا نتائج آتے ہیں، حکومت پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے، 35 سال میں کئی مرتبہ ہمیں حکومت کرنے کا موقع ملا اور کئی مرتبہ کسی اور کو حکومت مل گئی، مگر مقصد صرف پاکستان ہونا چاہیے۔نائب وزیراعظم نے مزید کہا کہ اس وقت آئی ایم ایف سمیت تمام مالیاتی اداروں کے سربراہان پاکستان آئے اور وزیراعظم نواز شریف سے ملاقاتوں کے بعد میرے ساتھ بیٹھ کر پاکستان کی تعریفوں کے پل باندھتے تھے، وہ کہتے تھے کہ جس طرح آپ کا ملک اڑان بھر رہا ہے، یہ جی 20 ملکوں میں شامل ہوجائے گا اور 2017 تک ہم 24ویں معیشت بن گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے 2030 تک جی 20 ممالک میں شامل ہوجانا تھا لیکن پھر سازشیں شروع ہوئیں اور 2018 میں حکومت بھی بدلی اور 22-2020 تک ہم 47ویں معیشت بن گئے اور ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ گئے۔اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ 2022 میں آئینی طریقے سے تحریک عدم اعتماد لانے کے بعد جب پی ڈی ایم کی حکومت بنی وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے بہت مشکل صورتحال تھی، ملک کا دیوالیہ ہونا نوشتہ دیوار تھا لیکن ہم نے فیصلہ کیا سیاست دا پر لگتی ہے تو لگ جائے لیکن ریاست بچ جائے اور ہم نے اپنے اپنا کام کر دکھایا۔ان کا کہنا تھا کہ اگر 2017 میں میری بات مانی گئی ہوتی تو پاکستان 5 سال کشکول لے کر نہ پھرتا اور پاکستان کو دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرہ نہ ہوتا، پاکستان میں اتنی لچک موجود ہے لیکن ہم خود اپنے دشمن بن جاتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ پی ڈی ایم حکومت نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا اور پھر 9 اگست کو نگراں حکومت آئی، جو معیشت کا حال تھا وہ آپ کے سامنے ہے، مہنگائی 38 فیصد پر پہنچ گئی، شرح سود 22 فیصد پر پہنچ گئی، بینک 24 فیصد پر قرض دے رہے تھے تو اس میں کون سا کاروبار چل سکتا تھا، جن کے پاس پیسے تھے انہوں نے کہا کہ بینک میں پیسے رکھ کر کمائے، کام کرنے کی کیا ضرورت ہے۔وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ گزشتہ سال فروری میں ہمیں دوبارہ موقع ملا اور الحمدللہ بڑی کوششوں کے بعد ایک سال میں ملک بھیانک معاشی صورتحال سے نکل چکا ہے اور مستحکم ہوگیا اور اب ترقی کا سفر شروع ہوگیا ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی