ایس اینڈ پی گلوبل اور نٹ شیل گروپ کے تعاون سے " Career Development: Creating a Path for Employee Growth "and Retention کے موضوع پر ایک ویبینار کا انعقاد کیاگیا۔ پاکستان میں بڑےکارپوریٹ ایگزیکٹوز اور ایچ آر ماہرین نے کام کی جگہ سے ربط، تکنیکی ترقی اور اداراتی تبدیلیوں کے اثرات کا جائزہ لیا۔ انہوں نے کام کی جگہ کے مثالی ماحول پر گفتگو کی، جس میں مسلسل بہتری آرہی ہے- جس سے اداروں کو اپنی تنظیم نو کرنے اور اپنے بہترین ٹیلنٹ سے بھرپور فائدہ اٹھانے میں مدد ملے گی۔ اپنے ابتدائیہ میں ایس اینڈ پی گلوبل کے منیجنگ ڈائریکٹر مجیب ظہور نے کہا کہ ہم ایس اینڈ پی گلوبل میں اپنی توانائیاں واضح اہداف تیار کرنے، مسلسل سیکھنے، حکمت عملی کے تحت نیٹ ورکنگ، فیڈ بیک کے حصول اور پوری ٹیم میں قائدانہ صلاحیتوں کو فعال طور پر فروغ دینے پر صرف کرتے ہیں۔مجیب ظہور نے مزید بتایا کہ ایس اینڈ پی گلوبل نے 2019 میں بیسٹ پلیس ٹو ورک، گولڈ ایوارڈ ٹاپ آئی ٹی ایکسپورٹر 2016-2018، پلاٹینم ایوارڈ بی پی او سروسز 2019، اور ٹاپ آئی ٹی ایکسپورٹر 2019 میں سلور ایوارڈ سمیت کئی ایوارڈز جیتے ہیں۔
ان ایوارڈز نے صارفین نے کمپنی کا نام عام کرنے میں مدد کی۔ ایس اینڈ پی گلوبل کارپوریٹ ذمہ داری، Diversity, Equity and Inclusion (ڈی ای آئی) اقدامات میں بھی بھرپور حصہ لے رہا ہے، جس میں خواتین افرادی قوت کی تربیت بھی شامل ہے۔ یو ایس پاکستان ویمن کونسل کے تعاون سے ملین ویمن مینٹورشپ (ایم ڈبلیو ایم) پروگرام کے تحت ہم نے 15,400 سے زیادہ خواتین کو STEM سے متعلق مختلف مہارتوں کی تربیت فراہم کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ہدف 20,000 خواتین کو تربیت دینا ہے اور ہم اس ہدف کو جلد حاصل کرنے کے لیے پُرامید ہیں۔ ٹیکنالوجیز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مجیب ظہور نے کہا کہ ایس اینڈ پی گلوبل کا پلیٹ فارم 'Edge' ہماری ٹیم کے اراکین کے لیے نئی چیز ہے۔ مجیب ظہور نے کہا Edge ٹیم کو کاروبار کو سیکھنے، ذاتی اور پیشہ وارانہ مہارتوں سے لے کر انڈسٹری کے اہم موضوعات اور لوگوں کے رہنما ترقیاتی پروگراموں تک کے کورسز میں مدد فراہم کرتا ہے۔ویبینار میں ترقی کی رفتار کو برقرار رکھنے کے لیے بہت سے نقطہ نظر پیش کیے گئے ۔ایس اے پی کے منیجنگ ڈائریکٹر پاکستان، عراق اور افغانستان ثاقب احمد نے لیڈرشپ کے کردار کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ کام کرنے کی جگہ کا ماحول مجموعی طور پر بدل رہا ہے اور ملازمین جانتے ہیں کہ وہ جس ادارے کے لیے کام کررہے ہیں ِوہاں ان کے کیا حقوق اور مطالبات ہونے چاہیے۔
انہوں نے، ٹیلنٹ کا بھرپور استفادہ اور باصلاحیت لوگوں کا پاکستان چھوڑ نے کے رجحان میں کمی، بہترین سازگار ماحول پر زور دیا۔ ویبینار کے ایک موضوع پر گفتگو کے بعد الکریم حسن، چیف اسٹریٹیجی آفیسر MAK ٹیکنالوجی، یو اے ای نے نظامت کی۔ پینلسٹ میں واصف رضوی، صدر، حبیب یونیورسٹی، فاطمہ اسد سید، چیف ایگزیکٹو آفیسر، اباکس کنسلٹنگ ٹیکنالوجی لمیٹڈ؛ تنزیلہ حسین گلوبل ایچ آر بزنس پارٹنر، برٹش کونسل؛ محمد رضوان ڈالیا، چیف پیپلز آفیسر، کے الیکٹرک؛ اور شاہ رخ مسعود، گروپ ڈائریکٹر ہیومن ریسورسز اینڈ کارپوریٹ کمیونی کیشن، مارٹن ڈاؤ گروپ شامل تھے۔ الکریم حسن نے نئے کام کے طریقہ کار پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”ہر ایک کو ترقی نہیں دی جاسکتی، لیکن ہر فرد ترقی کرسکتا ہے۔“ انہوں نے بتایا کہ کسی ادارے سے طویل عرصے تک وابستگی کامیابی کیرئیر کی نشانی ہے، لیکن اب ادارے اپنے ملازمین کو ایک سے زیادہ آجروں کے ساتھ کام کرنے پر زور دے رہے ہیں، کیونکہ وہ مستقبل میں ترقی کے لیے ہنرمندی اور صلاحیت کو مزید بہتر بنانے پر یقین رکھتے ہیں۔
ملازمین کو اپنے اداروں میں وابستہ رکھنے کے طریقوں پر بات کرتے ہوئے واصف رضوی نے کہا کہ کسی ادارے میں کتنے عرصے کام کرنا ہے، اس کے لیے ترقی، حوصلہ افزائی اور اچھے تعلقات کے علاوہ جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے وہ مقصد کے حصول کا مشترکہ احساس ہے، جس کی وجہ سے ملازمین ادارے سے جڑے رہتے ہیں۔ یہی چیز ایک کامیاب اور اوسط درجے کے ادارے میں بنیادی فرق ہے۔ فاطمہ اسد سید نے افرادی قوت کو مواقع کی فراہمی، جس سے ملازمین کی قدر میں اضافہ اور انسانی عنصر حکمرانی کے حوالے سے کہا کہ یہ سب بلواسطہ پائیداری اور پیداوارکو نمایاں طور پر متاثر کرتا ہے۔ موجودہ زاویوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا روایتی درجہ بندی کی رپورٹنگ لائنوں کو کراس فنکشنل ٹیموں نے بدل دیا ہے، اور ڈیموگرافک شفٹ میں اب ایک ادارے کے اندر پانچ نسلیں کام کر رہی ہیں، جو نئی قیادت کے لیے حقیقی چیلنج ہے۔ مستقبل میں کیرئیر کی ترقی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے تنزیلہ حسین نے کہا کہ اب یہ ذمہ داری اداروں پر ہے کہ وہ کس طرح ممکنہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں اور اُن کی صلاحیتوں کو فروغ دینے میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ ٹیلنٹ کی جنگ اب بھی جاری ہے، اس لیے اپ اسکلنگ اور رائٹ اسکلنگ ناگزیر ہیں۔ رضوان ڈالیا نے کھیل، مقصد اور صلاحیت کے تین "P" اکے بارے میں بتایا کہ کس طرح یہ ملازمین کے ساتھ ساتھ کمپنیوں کے ادارہ جاتی ماڈل کی پائیداری میں کردار ادا کرتے ہیں۔
انہوں نے اپنی ٹیم کو برقرار رکھنے اور ترقی کو یقینی بنانے کے لیے لائن منیجر کے کردار کو اہم قرار دیا۔ شاہ رخ مسعود نے نئی نسل کے بدلے ہوئے ویلیو سسٹم کی عکاسی کرتے ہوئے کہا کہ پہلے لوگ دس سے پندرہ سال تک ایک ادارے سے وابستہ رہتے تھے اور ایک ہی ادارے میں کئی عہدوں پر کام کرتے تھے، لیکن اب صورتحال بدل گئی ہے۔ اب ترقی کو مختلف انداز سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ نسل فوری نتائج چاہتی ہے۔ وہ ایک ایسی جگہ کام کرنا چاہتے ہیں جہاں انہیں سنا اور سراہا جائے۔ اختتامی سیشن میں واصف نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ یونیورسٹیاں سب سے پرانے ادارے ہیں اور ان کے پاس بہت سے طریقے ہیں، جن پر ڈی ای آئی کے لحاظ سے کارپوریٹ ادارے عمل پیرا ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر اس با ت کا ذکر کیا کہ کس طرح سے گوگل جیسی ٹیک کمپنیوں نے اپنے کام کی جگہوں کا نام بدل کر کیمپس رکھ لیا ہے۔ فاطمہ نے تنقیدی سوچ اور ہمدردی کی اہمیت پر روشنی ڈالی، جب کہ تنزیلہ نے کام کی جگہ پر ڈی ای آئی پر عمل درآمد پر زور دیا۔ رضوان نے تبدیلی کے لیے ملازمین کی صلاحیتوں پر توجہ مرکوز اور اسٹیک ہولڈرز کو منظم کرنے پر زور دیا، جبکہ شاہ رخ نے شفافیت اور ملازمین کے ساتھ رابطے کے فائدے کی وضاحت کی۔ ویبینار کے تمام مقررین اور پینلسٹس کی جانب سے قیمتی معلومات اور خیالات کا اظہار کیا گیا، جس میں دنیا بھر کے 11 ممالک سے براہ راست اس میں شرکت کی گئی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی