قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ریاستی و سرحدی امورنے فاٹا ہاؤس اسلام آباد پر وزارت داخلہ کے قبضے پر شدید برہمی کااظہار کرتے ہوئے وزارت داخلہ کو فاٹا ہاؤس اسلام آباد صوبہ خیبر پختونخوا کے حوالے کرنے کی ہدایت کردی۔ کمیٹی نے ایچ ای سی کو وفاق المدارس کے ساتھ مل کر دینی مدارس کے بچوں کو بھی لیپ ٹاپ دینے کے حوالے سے طریقہ کار بنا نے کی ہدایت کردی ۔ قائمہ کمیٹیوں میں ارکان کی عدم دلچسپی کی وجہ سے کورم کا سنگین مسائل پید اہونا شروع ہوگئے کورم نہ ہونے کی وجہ سے سیفران کمیٹی 45منٹ تاخیر سے شروع ہوئی ۔حکام نے کمیٹی کوبتایاکہ شمالی وزیرستان کے متاثرہ دکاندارروں کو معاضہ دینے کے لیے فنڈز ہی نہیں ہیں فنڈز ملیں گے تو تقسیم کردیں گے ۔چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار نے کہاکہ مدارس والے بھی ہمارے بچے ہیں ان کو مین سٹریم میں لانا چاہئے، ان کے لئے لیپ ٹاپ کے لیے اگلے مالی سال میں علیحدہ پراجیکٹ بناتے ہیں۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ریاستی و سرحدی امور( سیفران) کااجلاس چیئرمین محمد جمال الدین کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاوس میں ہوا۔اجلاس کے مقرہ وقت پر صرف ایک رکن محمدافضل کھوکھر اجلاس میں آئے ۔ کورم نہ ہونے کی وجہ سے اجلاس شروع کرنے میں 45منٹ کی تاخیر ہوئی ۔ اجلاس میں سیکرٹری سیفران، ای ڈی ایچ ای سی، ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ، کے پی کے حکام نے شرکت کی ۔پہلے ایجنڈے کے محرک محسن داوڑ کمیٹی میں آئے تو کورم نہیں تھا جس پر انہوں نے کہاکہ آدھی پارلیمنٹ باہر بیٹھی ہوئی ہے اور باقی آدھے وزیر بن گئے ہیں کمیٹی میں شرکت کے لیے کوئی نہیں بچا ہے۔ وفاقی سیکرٹری سیفران نے کمیٹی کوبتایاکہ وزیر سیفران عمرے پر گئے ہوئے ہیں جس پر چیئرمین کمیٹی جمال الدین نے کہاکہ عمرے کے پیسے ہمارے اوپر تقسیم کرتے تو زیادہ ثواب ہوتا۔اس دوران رکن آفرین خان کمیٹی میں آئے جس کے بعد 11بج کر 15منٹ پر رکن نصیبہ چنا،چوہدری محمداشرف اور نوید عامر جیو آئے تو کورم مکمل ہوا اور اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی اس دوران اجلاس تاخیر سے شروع کرنے پر رکن کمیٹی محمدافضل کھوکھر کمیٹی سے چلے گئے ۔کمیٹی میں محسن داوڑ کا شمالی وزیرستان میں دہشتگردی کے خلاف جنگ کے دوران متاثر ہونے والی تاجر برادری میں فنڈز کی تقسیم کا معاملہ زیر بحث آیا۔پی ڈی ایم اے خیبرپختونخوا حکام نے بتایاکہ دکانیں تباہ ہونے والوں کو معاوضہ دینے کے لیے 6.7 ارب روپے کی درخواست بھیجی ہوئی ہے،فاٹا کے لئے 17 ارب روپے سالانہ مختص ہوتے تھے، گزشتہ سال 17 ارب مختص ہوئے لیکن12 ارب ریلیز ہوئے، اس سال وہ پیسے مختص ہی نہیں ہوئے، تو کس طرح معاوضہ دے سکتے ہیں ہمارے پاس فنڈز نہیں ہیں اس لئے معاوضوں کی ادائیگی روکی ہوئی ہے۔
ایجنڈے کے محرک محسن داوڑ نے کہاکہ ہمارا ایجنڈا پیسوں کی تقسیم کے حوالے سے ہے اگر پیسے ہی نہیں تو تقسیم کے طریقہ کار پر بات کرنا وقت کا ضائع ہے اس لیے جب تک پیسے نہیں ملتے اس وقت تک یہ ایجنڈا موخر کیاجائے ۔ کمیٹی نے فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے معاملہ موخر کردیا۔ا جلاس میں فاٹا ہاؤس اسلام آباد پر وزارت داخلہ کے قبضے سے متعلق معاملہ زیر بحث آیا ۔ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ نے کمیٹی کوبتایاکہ فاٹا ہاوس میں ہمارے دفاتر بنے ہوئے ہیں وہاں کام ہورہاہے ہم نے بھی فاٹا ہاوس میں 6ملین روپے خرچ کئے ہیں فاٹا ہاوس کے حوالے سے جو کمیٹی فیصلہ کرے گی ہم اس کو مانیں گے،فاٹا ہاوس ہمارے زیر استعمال ہے ۔محسن داوڑ نے کہاکہ آپ نے 6ملین خرچ کرکے اربوں کی جائیداد پر قبضہ کرلیاہے فاٹا کے پی کے میں ضم ہوگیاہے تو فاٹا ہاؤس بھی کے پی کے کو دیا جانا چاہیے آپ نے بلڈنگ ہڑپ کر لی ہے، پوری بلڈنگ پر قبضہ کر لیا ہے، کس قانون کے تحت یہ عمارت آپ نے قبضے میں لی ہے، کس نے لکھ کر دیا ہے کہ آپ نے اس پر قبضہ کرلیاہے ۔صوبہ کے پی کے کے حکام نے کمیٹی کو بتایاکہ فاٹاہاوس کا قبضہ واپس لینے کے لیے ہم نے باقاعدہ خط لکھا ہے مگر ابھی تک اس کا جواب وزارت داخلہ نے نہیں دیاہے ۔ چیئرمین کمیٹی جمال الدین نے کہاکہ آپ فاٹا ہاؤس صوبے کو واپس کریں، اسے کے پے کے ہاؤس2ٹو کا نام دیا جائے، آدھا اسلام آباد انہی لوگوں کے پاس ہے، ہمیں فاٹا ہاؤس واپس کریں ۔محسن داوڑ نے کہاکہ کمیٹی کی جانب سے وزارت داخلہ کو ایک خط بھی بھیجا جائے،کہ فوری طورپر فاٹاہاؤس کو واپس کیاجائے ۔
کمیٹی نے وزارت داخلہ کو فاٹا ہاؤس اسلام آباد صوبہ خیبر پختونخوا کے حوالے کرنے کی ہدایت کردی ۔دینی مدارس کے طلباء کو وزیراعظم لیپ ٹاپ اسکیم میں شامل نہ کئے جانے کامعاملہ زیر بحث آیا۔چیئرمین کمیٹی نے ایچ ای سی حکام کو کہاکہ سابقہ فاٹا اوردینی مدارس کو لیپ ٹاپ دینے کے حوالے سے بتائیں۔چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار احمد نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ 9500لیپ ٹاپ پہلے بھی سابقہ فاٹا کے طلبہ کو ملے ہیں اب بھی سابقہ فاٹا کے بچوں کو ملیں گے۔دینی مدارس کا مینڈیٹ ہمارا نہیں ہے ۔ہم ان کو بھی لیپ ٹاپ دینے کے حق میں ہیں ۔مدارس کے طلبا کا ڈیٹا ایچ ای سی کے پاس نہیں ہے مدارس کے بچوں کو بھی مین سٹریم میں لایا جائے ۔اس وقت جو لیپ ٹاپس آرہے ہیں وہ پورے پاکستان کی پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے لئے ہیں،ہم نے کوشش کی کہ دینی مدارس کا ڈیٹا مل جائے،ہم سپورٹ کرتے ہیں کہ ان کو بھی آن بورڈ کیا جائے،وہ ہمارے بچے ہیں ان کو مین سٹریم میں لانا چاہئے، ان کے لئے اگلے مالی سال میں علیحدہ پراجیکٹ بناتے ہیں، اس وقت سکیم صرف یونیورسٹیوں کے بچوں کے لئے ہے، میرٹ پر لیپ ٹاپس دیئے جائیں گے۔ کمیٹی نے چیئرمین ایچ ای سی کو ہدایت کی کہ وفاق المدارس کے ساتھ مل کر دینی مدارس کے بچوں کو بھی لیپ ٹاپ دینے کے حوالے سے طریقہ کار بنایا جائے ۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی