پی ٹی آئی رہنما رئوف حسن نے کہا ہے کہ حکومت ہم سے مذاکرات نہیں کرنا چاہتی تھی، حکومت نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ ہی پی ٹی آئی سے مذاکرات کررہی ہے، مذاکرات کو50فیصدتک کامیاب ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ کوئی سمجھتا ہے کہ حکومت ہم سے مذاکرات کرناچاہتی تھی تو غلط ہے، حکومت ہم سے مذاکرات نہیں کرنا چاہتی تھی۔پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ حکومت کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، طاقت کسی اور کے ہاتھ میں ہے، اس حد تک دبا ئوبڑھ گیا ہے کہ طاقتور لوگ مذاکرات کیلئے تیار ہوگئے ہیں۔انہوں نے کہا عالمی اور اندرونی دبائوبڑھ گیا ہے ۔ ادارے تباہ ہورہے ہیں، چاہتا ہوں مذاکرات کامیاب ہوں اورملک کے مسائل کاحل نکلے، مذاکرات کو50فیصدتک کامیاب ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔رئوف حسن نے کہا کہ حالات بتا رہے ہیں کہ حکومت کسی نتیجے پر پہنچنا ہی نہیں چاہتی تھی، حکومت نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ ہی پی ٹی آئی سے مذاکرات کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ رانا ثنااللہ ہی نے کہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کو آن بورڈ لیں گے، میری نظر میں اسٹیبلشمنٹ ہی ان ڈائریکٹ مذاکرات کر رہی ہے۔پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ زبان اور لہجہ کوئی نئی بات ہیں، پہلے بھی سخت بیانات آتے رہے ہیں، دبا ئوڈالنے کے مختلف حربے ہوتے ہیں تاکہ مذاکرات میں راضی کیا جاسکے۔
یورپی یونین کے ساتھ عالمی سطح پر بھی دبائو کا سامنا ہے، حکومت غیرارادی طور پر مذاکرات کررہی ہے، ہمارے مطالبات میں ایک بھی مطالبہ مانا جائے گا تو حکومت ختم ہوجائے گی۔رئوف حسن نے کہا کہ ہم نے دو مطالبات حکومت کے سامنے رکھے ہیں،ایک مطالبہ تو یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی اسیران کو رہا کیا جائے۔دوسرامطالبہ ہے کہ9مئی اور26نومبر کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے، حکومتی اور پی ٹی آئی مذاکراتی کمیٹی کی2جنوری کو دوبارہ ملاقات ہوگی۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سول نافرمانی کال پر گزشتہ روز سے عمل درآمد شروع کردیا گیا ہے، اس کے مختلف فیز ہیں جس مرحلہ وار ہوں گے، ابتدائی مرحلے میں اوورسیز پاکستانیوں سے ترسیلات زر کم بھیجنے کا کہا گیا ہے۔انہوں نے کہا مذاکرات میں طویل وقفے پرمجھے ذاتی طور پر تحفظات ہیں، 10دن کا وقفہ نہیں ہونا چاہیے تھا، روزانہ کی بنیاد پر اجلاس ہونے چاہیے تھے۔کوشش کی جائے گی کہ مذاکرات جلد سے جلد حتمی ہوجائیں، ملک میں اب کوئی بھی چیز حیران نہیں کرسکتی، انہوں نے یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔اسمبلیوں سے استعفی دیا تو یقین تھا کہ جلد انتخابات ہوجائیں گے، ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے آئین کو روندتے ہوئے دیکھا۔انہوں نے کہا اعتماد کا فقدان بہت زیادہ ہے جس کی واضح مثال اسپیکر کی بنائی گئی کمیٹی تھی، ایم این ایز کی گرفتاری پر کمیٹی بنائی گئی جو26ویں ترمیم کے لیے کام کرتی رہی۔ اعتماد کے فقدان کو ختم کرنے کیلئے حکومت کو اقدامات کرنا ہونگے۔
کریڈٹ : انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی