i پاکستان

گلگت بلتستان میں پیلیڈیم کی وافر مقدار موجود، نایاب دھات سونے سے زیادہ قیمتیتازترین

August 29, 2022

گلگت بلتستان میں پیلیڈیم کی وافر مقدار موجود، نایاب دھات سونے سے زیادہ قیمتی ،عالمی منڈی میں قیمت 66 ڈالر فی گرام،جنوبی افریقہ 80 میٹرک ٹن کی پیداوار کے ساتھ دنیا میں سرفہرست،پاکستان نے تاحال کان کنی اور تجارت شروع نہیں کی،ماہانہ 200 کلو گرام پیلیڈیم کی برآمدملک کے مالی بحران کو حل کرنے کے لیے کافی ۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق معدنیات سے مالا مال پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان میں پیلیڈیم کی وافر مقدار موجود ہے ۔یہ ایک چمکدار چاندی کی سفید نایاب دھات ہے جو سونے سے زیادہ قیمتی ہے تاہم حکومت نے ابھی تک بھاری زرمبادلہ کمانے کے لیے اسکی تجارت شروع نہیں کی ہے۔بہت سے ممالک پیلیڈیم کو کنٹرول شدہ مقدار میں تجارت کر کے اچھی رقم کما رہے ہیں۔ روس 2021 تک پیلیڈیم کا سب سے بڑا پروڈیوسر تھالیکن پھر جنوبی افریقہ نے 80 میٹرک ٹن کی پیداوار کے ساتھ روس کی 74 ملین ٹن کی پیداوار کو پیچھے چھوڑ دیا۔ سال 2021 کے دوران پیلیڈیم کے دوسرے سرفہرست برآمد کنندگان میں برطانیہ ،ریاستہائے متحدہ امریکہ، کینیڈا،سوئٹزرلینڈاور جرمنی شامل ہیں۔ گلوبل مائننگ کمپنی کے پرنسپل جیولوجسٹ اور پاکستان منرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے سابق جی ایم جیالوجی محمد یعقوب شاہ نے کہاکہ صرف گلگت بلتستان سے ماہانہ تقریبا 200 کلو گرام مختلف پی جی ایم گروپ کی دھاتیں حاصل کی جا سکتی ہیں۔ یہ پروسیسنگ ریٹ ملک کے مالی بحران کو حل کرنے کے لیے کافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پلاٹینم گروپ آف منرلز چھ قیمتی لیکن نایاب زمینی دھاتوں پر مشتمل ہے اور ہر معدنیات کا صنعتی استعمال الگ ہے جو عالمی منڈی میں مہنگے داموں فروخت ہوتے ہیں۔ جولائی 2022 کے دوران پیلیڈیم 66 ڈالر فی گرام میں فروخت ہوا۔پیلیڈیم، ایک غیر مقناطیسی اور عبوری چاندی کی سفید دھات، آٹوموبائلز، الیکٹرانکس کے لیے ایندھن کے خلیوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ زیورات، تاج، ہوائی جہاز کے اسپارک پلگ، ایگزاسٹ ٹریٹمنٹ سسٹم، پیشہ ورانہ ٹرانسورس بانسری، گھڑیاں بنانے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ دواسازی کی صنعت میں ڈینٹل فلنگس، بلڈ شوگر ٹیسٹنگ سٹرپس،سرجیکل آلات وغیرہ کے طور پر استعمال ہونے والا ایک وسیع اسپیکٹرم منرل بھی ہے۔عالمی سطح پر، تقریبا 85 فیصدپیلیڈیم آٹوموبائل انڈسٹری میں زہریلے اخراج کو کم نقصان دہ مواد میں تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ زیادہ ارتکاز میں پیلیڈیم اور اس کا کلورائیڈ جانداروں کے لیے انتہائی زہریلا ہے۔ پیلیڈیم پلاٹینم کے مقابلے میں 15 گنا نایاب ہے جو اسے نمایاں طور پر قیمتی بناتا ہے۔کچھ ممالک نے یادگار پیلیڈیم سکے بھی بنائے ہیں جن میں چین ،روس ،کینیڈااورآسٹریلیاشامل ہیں۔دیگر قیمتی دھاتوں کی طرح پیلیڈیم کا تعلق بھی کموڈٹیز مارکیٹ سے ہے اور اس کا زیادہ تر کاروبار نیویارک مرکنٹائل ایکسچینج پر ہوتا ہے۔اس دھات کو مناسب طریقے سے نکال کر پاکستان نہ صرف اپنے صنعتی اور سٹریٹجک شعبوں کو مضبوط بنا سکتا ہے بلکہ سماجی و اقتصادی فوائد بھی حاصل کر سکتا ہے۔

کریڈٹ:
انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی