وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ گالم گلوچ تباہی کا راستہ ہے، ملکی استحکام کیلئے پالیسیوں کا تسلسل ناگزیر ہے، آبادی میں اضافے، موسمیاتی تبدیلی جیسے چیلنجز سے نمٹنا ناگزیر ہے، ایک لیڈر نے جلسے میں نعرے لگائے اور مجھے چور ڈاکو کہا گیا، وہ شخص مجھ پر جھوٹا الزام لگانے کے باعث نشانِ عبرت بنا ہوا ہے۔ان خیالات کاا ظہار انہوں نے لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ وفاقی وزیر احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ہمارے نیوکلیئر پروگرام میں سول انجینئرز نے کردار ادا کیا، ایٹمی دھماکہ بھی سول انجینئرز کی مرہون منت ہے، انجینئرنگ کا شعبہ ملکی ترقی میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔انہوں نے کہا کہ 2018 میں ہم سے حکومت چھینی گئی تو ترقیاتی بجٹ ایک ہزار ارب پر چھوڑ کر گئے، 2022 میں ترقیاتی بجٹ کم ہو کر ساڑھے 700 ارب رہ چکا تھا، ایک طرف آبادی کا دبا اور دوسری طرف وسائل کا سکڑنا ہے، 2018 میں بطور منصوبہ بندی وزیر دن کا آغاز اس سے کرتا تھا کہ کونسا نیا منصوبہ شروع کرنا ہے، اب دن کا آغاز اس سے کرتا ہوں کہ کونسے منصوبے سے بچت ہوسکتی ہے۔انہوں نے کہا انجینئرنگ کسی معاشرے میں تعمیر و ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح کام کرتے ہیں، کسی ملک میں انجینئرز کی کیا کوالٹی مقام و مرتبہ ہے وہ ترقی کیلیے اہم ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ترقی میں انجینرز کے کارہائے نمایاں کام منگلا ڈیم، تربیلا ڈیم، موٹرویز، حتی کی نوکلئیر پروگرام کو سول انجینئر کو حقیقت میں ڈھال نہیں سکتے تھے۔احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان میں آبادی بڑھانے سے بریک سے پیر ہٹا کو ایکسیلیٹر پر رکھ دیا، پاکستان دنیا کا پانچواں آبادی والا ملک ہے، چالیس کروڑ آبادی ہوجائے گی وسائل کم ہو رہے پانی کم ہورہا ہے۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ہم جن بادلوں میں گھرے ہوئے تھے اب آہستہ آہستہ چھٹ رہے ہیں، سٹاک مارکیٹ 30 ہزار پر گری ہوئی تھی وہ اب ایک لاکھ پوائنٹس کی حد عبور کرچکی ہے، ہم بھی اب اکیسویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں، آزادی کے 77 سال گزر چکے ہیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمیں بحیثیت قوم سوچنا ہے کندھوں پر بہت بڑا بوجھ اٹھا کر کھڑے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے وہ کونسی کمی تھی جس کے باعث ہم آگے نہیں بڑھ سکے، آج سے 23 سال کے بعد ہم اور ہندوستان دوبارہ تاریخ کی عدالت میں آزادی کی 100 سالہ تقریبات مناتے کھڑے ہوں گے۔ان کا کہنا تھا کہ دیکھا جائے گادونوں ممالک نے اپنے عوام کو کیا ڈلیور کیا، مستقبل ٹک ٹاک ،فیس بک اور سوشل میڈیا کے ذریعے تعمیر نہیں ہوگا، یہ مستقبل عمل کی دنیا میں محنت کے ساتھ اور ٹیم بن کر کام کرنے سے تعمیر ہوگا، اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو تاریخ ہم پر سخت فیصلہ دے گی۔
لیگی رہنما نے کہا کہ ہمیں اپنی سمت کا فیصلہ کرنا ہے کہ کس طرف جانا چاہتے ہیں، ہمیں اپنی رفتار کو تیز کر کے 77 سالوں کا نقصان پورا کرنا ہے، ہمیں نفسیاتی طور پر اغیار نے بیمار کردیا، ہم خود پر اعتبار کھو چکے ہیں، ایک دوسرے سے پولرائزیشن میں دھنس چکے ہیں۔وزیر منصوبہ بندی کا کہنا تھا کہ ایک لیڈر نے میرے خلاف جلسے میں کھڑے ہو کر چور اور ڈاکو کے نعرے لگوائے، وہ لیڈر آج ان طعنوں کی وجہ سے نشان عبرت ہے، ہمیں آج ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہہ کر نیچا نہیں دکھانا، گالم گلوچ تباہی کا راستہ ہے، ہر کامیاب ملک نے امن،سیاسی استحکام، پالیسیوں کو 10سال کا تسلسل اور اصلاحات کا راستہ اپنایا۔ انہوں نے کہا کہ ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہنے کے بجائے بہتر سے بہتر پالیسی لائیں، ملکی ترقی کے منصوبوں پر ایک دوسرے سے آگے نکلنا ہے، گالی گلوچ میں نہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت مہنگائی پر قابو پانے کے لیے ٹھوس اقدامات کر رہی ہے، مہنگائی کی شرح پچھلے برسوں کی نسبت کم ہو رہی ہے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ آج کی دنیا میں نظریات کے بجائے فی کس آمدنی کا پیمانہ رائج ہے، ملکی اقتصادی و معاشی استحکام وقت کی اہم ضرورت بنتا جا رہا ہے۔احسن اقبال نے کہا کہ اسٹاک مارکیٹ ایک لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔
کریڈٹ : انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی