i پاکستان

دی کشمیر ساگاتازترین

April 18, 2023

دی کشمیر ساگا
(آخری قسط)
“کشمیر کے دریا، پاکستان کے لہلہاتے کھیتوں اور زرعی معیشت کو سرسبز و شاداب رکھتے ہیں۔
“دریائے سندھ، بلتستان سے اور جہلم، چناب اور راوی کشمیر سے نکلتے ہیں جو پاکستان کی زرخیزی اور خوشحالی کا اہم ذریعہ ہیں۔ سستی لکڑی بھی ان دریاؤں کے ذریعہ وہاں پہنچتی ہے بصورتِ دیگر بھارت بھاری قیمت وصول کرے۔
“کشمیر کی جغرافیائی اہمیت اور وجود کے پیشِ نظر،سنجیدہ ماہرین کو سر جوڑ کر اس مسئلہ پر توجہ دینی چاہیۓ۔ اسے حل یا تسلیم کرلیا جانا چاہیۓ کہ یہ کشمیر کی آزادی کے لیۓ بھی ضروری ہے۔
“رقبہ اور آبادی کے اعتبار سے یہ سوئٹزرلینڈ کے برابر ہے اور اُتنا ہی خوبصورت بھی۔ اگر سوئٹزرلینڈ، دو عالمی جنگوں کی لپیٹ سے دور اور محفوظ رکھا جاسکتا ہے تو کشمیر تمام تنازعات سے پاک کیوں نہیں رہ سکتا؟
“اگر یہ حقیقت تسلیم کرلی جائے تو کشمیر، مشرق کا سوئٹزرلینڈ بن جائے اور کہلائے بھی! بھارت اور پاکستان دونوں کے لیۓ آزادانہ (بلا ویزہ) آمد و رفت کی اجازت ہو جیسی کہ 1846 سے 1946 تک تھی۔
“بھارت اور پاکستان، مُشترکہ طور پر ریاست کی صنعت، زراعت اور آبپاشی کے نظام کو مالی تعاون کے ذریعہ فروغ دے سکتے ہیں۔ معیشت کے لیۓ، وافر قُدرتی وسائل موجود ہیں اور کسی بیرونی امداد کے بغیر بھی چل سکتی ہے۔
“کشمیر دوام پاسکتاہے بشرطیکہ اس کے وسائل پر توجہ مرکوز کی جائے اور موجودہ رکاوٹوں کو دور کردیا جائے۔ مثال کے طور پر، پاکستان اور بھارت کشمیر جانے والی تمام سڑکوں کو آمد و رفت کے لیۓ کھول دیں تو میری تجویز کے مثبت اور قابلِ عمل ہونے کا ایک نمایاں ثبوت اور پہلو اُجاگر اور عیاں ہو جائے گا۔
“اگرسکھوں کا خالصتان قائم ہوگیا تو ایک آزاد ملک کی حیثیت سے کشمیر کا راستہ از خود ہموار ہوجائے گا جس کا فائدہ، پاکستان اور بھارت دونوں کو ہوگا اور وہ بہت سے پیچیدہ مسائل سے آزاد ہو جائیں گے۔ اس طرح دونوں کے باہمی تعلقات بھی بہتر اور خوشگوار ہوجائیں گے۔
“یوں کشمیر، چین، بھارت، پاکستان، افغانستان اور روس کے درمیان ایک بفر ریاست بن جائے گا۔ میرا قیاس ہے کہ کشمیر کو اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیۓ فوج کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی اور جارحیت کرنے والا مُلک کشمیر سے علیحدگی پر مجبور ہوگا۔
“میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ مندرجہ بالا ممالک کشمیر کا تحفظ اور دفاع سوئٹزرلینڈ کی طرز پر کرنے کے پابند ہوں گے۔ مجھے اُمید ہے کہ مُستقبل میں برصغیر کے سنجیدہ و باشعور سیاستدان، ‘کشمیر پوری دُنیا کے لیۓ ایک عالمی گُلشن اورسیاحتی مرکز’ کے موضوع پر غور و فکر کریں گے؟
“کشمیر میں آزادانہ آمدورفت، اسے ایک دلفریب عالمی ملاقات گاہ میں تبدیل کرسکتی ہے جس سے اس کی آمدنی اور زرِ مبادلہ میں بے حساب اندازہ ہوسکتا ہے۔ کیا ہم اپنی آئندہ نسل سے یہ توقع کرسکتے ہیں؟”۔
قارئینِ گرامی! کشمیر کے قابلِ فخر فرزند، حُریت پسند و غازی، سالارِ کاروانِ آزادی اور آزاد جموں و کشمیر حکومت کے پہلے صدر، سردار ابراہیم مرحوم کا “ایک خواب” آپ کے سامنے ہے۔
ان کی اس تاریخی و نایاب کتاب کے پیش لفظ اور “ہم نے کشمیر کیوں کھویا” کے حوالہ سے دو اہم ابواب کو اُردو میں، آپ تک پہنچانے کا مقصد اپنی موجودہ اور آئندہ نسل کو یہ بتانا ہے کہ ایک محبِ وطن کشمیری قانون دان اور قائد کا خواب تشنۂُِ تعبیر کیوں رہا؟ جو ہر حُریت پسندی کشمیری کا خواب ہے۔

(ختم شد)

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی