دی کشمیر ساگا
جیسے ہی ریاست کے پونچھ صوبہ میں، کشمیر کی جنگِ آزادی شروع ہوئی تو پاکستان کی حکومت چوکنا ہوگئی کیوں کہ ریاست کا یہ علاقہ ۔ سیالکوٹ سے ابیٹ آباد تک، پاکستان کی سرحد سے ملا ہوا تھا۔
دوسری بات یہ تھی کہ اس صوبہ سے فوجیوں کی ایک بڑی تعداد
پاکستان کی فوج میں شامل تھی۔ اِن فوجیوں کو جب یہ اطلاع ملی کہ اُن کے بال بچے شدید خطرے میں ہیں تو وہ اپنی یونٹوں کو چھوڑ کر آزادی کی جنگ کا حصّہ بنتے چلے گئے۔
مہاراجہ کشمیر خطرے کو بھانپ کر سرینگر سے فرار ہوکر جموں چلا گیا۔ اس مخدوش صورتِ حال کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے، بھارت نے راجہ کو مشروط الحاق پر مجبور کیا اور بہکایا کہ حالات معمول پر آتے ہی وہاں استصوابِ رائے کروایا جائے گا۔
اس کے ساتھ ہی بھارت مسئلہِ کشمیر کو عُجلت میں یو۔این سیکیوریٹی کونسل میں لے گیا تاکہ پاکستان کو مطعون کیا جاسکے اور بھارتی الحاق کا قانونی جواز تسلیم کرلیا جائے مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکا۔
1948 میں جب یہ قلمکار،آزادکشمیر کا مقدمہ پیش کر رہا تھا اور اقوام متحدہ کے عارضی دفتر، (Lake Success) میں بحث جاری تھی کہ دہلی میں مہاتما گاندھی کے قتل کی وجہ سے سکیوریٹی کونسل کا اجلاس فوری طور پر مؤخر کر دیا گیا۔ یوں معاملہ ٹھپ اور بے سر و پا بحث بے مقصد ثابت ہوئی سوائے UNCIP کمیشن کے قیام کے کہ وہ مُتعلقہ فریقوں کے ساتھ رابطہ اور گُفتگو کرے۔
یہاں پاکستانی وفد کی پہلی غلطی، نیویارک میں شیخ عبداللّہ سے مُلاقات اور ہمارے قائد چوہدری غلام عباس کی جموں جیل سے رہائی تھی تاکہ وہ پاکستان کے گورنر جنرل، قائدِ اعظم محمد علی جناح سے ملاقات کرکے ایک خودمختارکشمیر کے قیام کی تجویز پیش کریں۔
جناح صاحب سے اپنی پہلی ملاقات میں، اُنہوں اس سے انحراف کیا جس کی وجہ سے قائدین کے درمیان اختلافِ رائے پیدا ہوا اور تحریکِ آزادی کو دھچکہ پہنچا۔
کشمیر اَفیرز کے نام سے ایک وزارت تشکیل دی گئی اور ایم۔ اے۔ گورمانی وزیر مقرر ہوئے۔ یہ وزارت تحریکِ آزادی کے لیۓ شدید نقصان کا باعث ثابت ہوئی۔ اس کی وجہ سے نہ صرف خرابی و بربادی ہوئی بلکہ پاکستانی بیوروکریٹس کے ہاتھوں اختتام کو پہنچی۔
دوسری غلطی، جونا گڑھ کے الحاق پر پاکستان کی رضامندی تھی۔ جونا گڑھ کی آبادی کی اکثریت ہندو تھی جبکہ نواب مُسلمان تھا۔ یہ ریاست، بھارت سے متصل تھی جس کا الحاق، پاکستان کو رد کردینا چاہیے تھا کیوں کہ نواب یا راجہ اپنی رعایا کی مرضی کے خلاف فیصلہ کرنے کا مجاز نہ تھا۔ اگر جونا گڑھ کا نواب اپنی ہندو اکثریت سے رائے مانگتا تو وہ یقیناً بھارت سے الحاق کے حق میں فیصلہ دیتی۔
اس بنیاد پر پاکستان کے لیۓ جموں و کشمیر کے الحاق کا مقدمہ کمزور نہ پڑتا اور پاکستان، جموں و کشمیر کے جائز الحاق کے اپنے جائز حق کو بروئے کار لانے میں کامیاب رہتا۔ اور کشمیر ملٹن کی ایک نظم کی تصویر نہ بنتا۔
(Kashmir was lost as was paradise)
پاکستان نے 1948 میں ایک اور غلطی یہ کی کہ جب پٹیل نے لیاقت علی خان کو کشمیر کی پیشکش کرتے ہوئے حیدرآباد کے بھارت کے ساتھ الحاق کی تجویز دی تو اُنہوں نے اس بارے میں اس مصنف پر اعتماد کرتے ہوئے، مشورہ چاہا۔
میں نے برجستگی سے اس تجویز کو قبول کرتے ہوئے کشمیر اور حیدرآباد کے عوام اور علاقہ میں امن کے لیۓ خوش آئند اور مفید قرار دیا۔
لیاقت علی خان نے مجھے بتایا کہ وزیرِ خزانہ، غلام محمد اس تجویز کی مخالفت کر رہے ہیں۔ “کیا آپ اُن سے ملاقات کرکے اُن کو قائل کرسکتے ہیں؟”۔
قصہ مختصر، وزیرِ خزانہ غلام محمد کے ساتھ میری ملاقات ہوئی جس کے دوران میں نے اُنہیں قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر وہ نہ مانے۔ بعد میں، مجھے یہ پتہ چلا کہ اُن کا حیدرآباد سے آنے والے سونے میں حصّہ تھا جو پائلٹ سڈنی کاٹن ایک طیارے میں کراچی لا رہا تھا۔
یہ افسوسناک واقعہ، کشمیر کے ایک آبرو مندانہ تصفیہ کی راہ میں ایک حدِ فاصل بنا جبکہ دوسری طرف بھارت نے فوجی طاقت کے ذریعے حیدرآباد پر قبضہ کرکے فاصلے مٹا دیئے۔
نومبر 1947 میں جب بھارت نے کشمیر میں فوجی مداخلت کا آغاز کیا تو قائدِ اعظم محمد علی جناح لاہور میں تھے۔ جناح صاحب ایک عظیم قائد، مدبر اور زیرک سیاستدان تھے جنہوں نے اپنی فوج کو جموں اور سرینگر دونوں میں فوری داخلہ کا حکم دیا۔ بعد میں یہ سُننے میں آیا کہ پاکستان اور بھارتی افواج کے برطانوی افسران نے لاہور میں اُن سے ملاقات کی اور جناح صاحب نے اپنے احکامات واپس لے لیۓ۔
ممکن ہے کہ ایسا ہی ہوا ہو مگر خود قائدِ اعظم نے اپنے احکامات کی واپسی کو اپنی کابینہ کی کم اعتمادی پرمحمول کیا تھا۔ مجھے یہ بات اُنہوں نے ایک ملاقات کے دوران خود بتائی تھی۔ حیاتِ فانی کے آخری ایام میں، وہ اپنی کابینہ اور وزیرِ اعظم سے شاکی اور کبیدۂِ خاطر نظر آتے تھے جس کی تصدیق محترمہ فاطمہ جناح نے بھی کی تھی۔
اگر قائداعظم کے احکامات کی بے چوں چراں تعمیل ہوجاتی تو کشمیر ایک پکے ہوئے پھل کی طرح اُن کی جیب میں آ گرتا۔ وہ بلا شبہ ایک جری اور پُرعزم انسان تھے جو ٹھوس اقدام میں یقین رکھتے تھے لیکن اس معاملہ پر اُن کے ساتھی، اُن کے ساتھ نہ تھے بالخصوص غلام محمد صاحب کا رویہ پوری کابینہ کے لیۓ پریشانی و تشویش کا باعث تھا۔
ایک معتبر راوی کے مطابق، ایک مرتبہ قائدِ اعظم کی زیرِ صدارت ایک اجلاس کے دوران وہ (غلام محمد) اپنی فائل میز پر پٹخ کر کمرے سے باہر چلے گئے۔ وہ بلڈ پریشر کے مریض تھے اور قائدِ اعظم اگلے ہی روز اُنہیں راہ پر لے آئے- (جاری ہے)
سردار محمد ابراہیم خان
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی