مصنف :سردار یعقوب خان
“جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے سدھنوتی (جموں کی تحصیل) بغاوت جو آگے چل کر تحریکِ آزادئِ کشمیر کا پیش خیمہ ثابت ہوئی، اُنہوں نے اپنے چند افراد پٹھان قبائلی علاقہ سے ہتھیاروں کی خریداری کے لیۓ وہاں بھیجے تھے۔
“جب اور پھر نومبر کے دوران، نیم خودمختار
پٹھان قبائلیوں کے ساتھ مُستقبل میں سیاسی تعلقات (اگر تھے) مکمل طور پر غیر یقینی تھے- تاہم صلاح و مشورے شروع ہوچکے تھے اور توقع کی جارہی تھی کہ یہ قوی اور سخت جان لوگ، نئی ریاست کے ساتھ الحاق پر رضامند ہوجائینگے۔ تاہم ان کی جانب سے کسی شرارت کا خدشہ بھی تھا جس سے نمٹنے کے لیۓ جرگوں کا اہتمام اور بندوبست ضروری تھا، جو نہ ہوسکا۔
“پاکستانی حکام کو بھی قبائلیوں سے خطرہ کے ساتھ یہ ادراک بھی تھا کہ وہ اُن سے ٹکر نہیں لے سکتے۔ اُس وقت، پاکستان کی فوج نہ ہونے کے برابر تھی اور اس کا انحصار غیر منقسم ہندوستان کی سابقہ فوج پر تھا جس میں سے کچھ دستے حسبِ ضرورت آگے پیچھے کیۓ جارہے تھے۔
“ہندو اور سکھ جو ابھی تک پاکستانی سرزمین اور دوسری طرف مُسلمان بھارتی علاقہ میں پھنسے ہوئے تھے جبکہ جنگجو پٹھان حکومت کے لیۓ سر درد سے کچھ کم نہ تھے کہ اگر وہ بپھر جاتے تو اُن پر قابو پانا مُشکل تھا۔
“یہ زیادہ پُرانی بات نہیں کہ 38-1937 میں، اکیلے وزیرستان نے رائل برطانوی فورسز کے پچاس ہزار سپاہیوں کو کئی ماہ تک، ایک خُون آشام گوریلہ جنگ میں گھیرے رکھا تھا”۔
جوزف کاربل جو پاک۔بھارت یو۔این کمیشن کا رُکن تھا، اپنی کتاب Danger in Kashmir کے صفحہ - 63 پر رقمطراز ہے:
“کشمیر کے مُستقبل کے بارے میں گُفت و شُنید ک غیر یقینی نوعیت کا نمایاں پہلو، مہاراجہ کا غیر ذمہ دارانہ طرزِعمل تھا۔ اُس کی قوم کے کوئی فیصلہ نہ کر پانے اور لوگوں کی تشنہ آرزؤں کے درمیان، 15 اگست 1947 یعنی تقسیم کا جان لیوا دن گذر گیا-
“مہاراجہ کی معاندانہ سوچ، سہل انگاری و عیاری (بشمول قولنج کی تکلیف)کی وجہ سے اُس کی رعایا کو ناقابلِ تلافی نقصان اور مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑا اور یوں وہ ایک پکا ڈوگرہ ثابت ہوا۔
“15 اگست کا سورج طُلوع ہوا تو مسلمانوں نے یومِ پاکستان منایا اور پوری ریاست میں جوش و ولولہ کے ساتھ پاکستانی جھنڈے لہرائے۔
“مہاراجہ نے پاکستانی جھنڈے پھاڑنے کا حُکم دیا اور پاکستان کے حامی اخباروں کی اشاعت پر پابندی عائد کردی۔ اُس کے باوجود دباؤ بڑھتا چلا گیا۔خُون میں ڈوبے ہوئے پنجاب سے آنے والے مہاجرین کے سکھوں اور ہندوؤں کے ہاتھوں دلخراش واقعات، سراسیمہ اور زخم خوردہ مہاجرین کی کشمیر میں موجودگی کے باوجود کشمیر کے اندر تناؤ اور کشیدگی کی شدت میں کوئی کمی نہیں آئی”۔
وہ صفحہ۔66 پر دوبارہ لکھتا ہے:
“ایک دوسرے پر الزام تراشی سے قطعِ نظر، کشمیریوں نے قبائلیوں کے حملہ آور ہونے سے بہت پہلے، مہاراجہ کے خلاف علمِ بغاوت بلند کردیا تھا۔ 1930 میں جنم لینے والی سیاسی مخالفت اور بُحران 1946 میں، ایک کُھلی مزاحمتی تحریک میں ڈھل چکی تھی۔
“جس نے 1947 کے موسمِ بہار میں، ایک بھرپور انگڑائی لی اور موسمِ گرما تک، ایک انتہائی نازک موڑ پر جا پہنچی جب پنجاب میں ہونے والے دنگا و فساد کی خبریں پورے کشمیر میں پھیلنے اور سُنائی دی جانے لگیں۔ مہاراجہ اس صورتحال سے پوری طرح آگاہ تھا لہذا اُس نے مُسلمانوں کی آبادی میں سکھ اور ہندو گیریژن کی نفری بڑھادی اور جولائی کے آخر میں مُسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے ہتھیار پولیس کے پاس جمع کروادیں”۔
“مُسلمانوں نے گوریلہ انداز میں، ٹولیوں کی شکل میں مغربی پونچھ کے پہاڑی علاقہ میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں جن کا ایک عرصہ تک کسی کو پتہ نہ چل سکا۔ ان کی قیادت برٹش انڈین آرمی کے سابق فوجی کررہے تھے اور ہتھیاروں کی فراہمی کے نگران بھی تھے۔
شمال مغربی صوبہ سرحد کے اسلحہ سازی کے لیۓ مشہور قبائلی علاقہ کو پیغام بھیج کر اسلحہ منگوایا جاتا اور پہاڑی علاقوں میں مسلمان مجاہدین کے حوالہ کردیا جاتا تھا۔
“دوسری جنگِ عظیم میں شریک سابقہ فوجی، مہاراجہ کی بڑھتی ہوئی شر انگیزیوں سے نمٹنے کے لیۓ اپنے اہلِ خانہ کو پہلے ہی مغربی پنجاب میں اپنے عزیز و اقارب کے پاس چھوڑ کر واپس جموں پہنچ چُکے تھے اور ڈوگرہ راج کے مدِمقابل سر بکف تھے۔ آزادی کے ان متوالوں کا قائد کون تھا؟ اس کی جوزف کاربیل نے صفحہ۔67 پر دو ٹوک وضاحت کی ہے:
“اِس تحریک کے قائد، ایک کشمیری نوجوان، سردار محمد ابراہیم خان تھے جو جون سے پوری ریاست میں متحرک و فعال اور اپنے ہموطنوں کا حوصلہ بڑھانے میں مصروف تھے۔ اگست میں وہ سرینگر میں گرفتاری سے بال بال بچے اور چھپتے چھپاتے، پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ مری پہنچ کر اُنہوں نے آزادی کی سیاسی تحریک کی داغ بیل ڈالی جس نے آگے چل کر آزاد کشمیر حکومت کی شکل اختیار کی”۔
(جاری ہے)
سردار محمد ابراہیم خان
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی