چینی ڈرون ٹیکنالوجی پاکستان میں زر عی انقلاب لا ئے گی ، ڈرونز کے مناسب استعمال سے زیادہ فوائد حاصل ہو نگے ، چینی ڈرون ٹیکنالوجی پاکستان میں زیادہ موثر اور پائیدار زرعی مستقبل کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔گوادر پرو کے مطابق چین کی ایک بڑی پاور کمپنی نے پاکستان میں کم اونچائی پر اڑنے والے ڈرون کی ٹیکنالوجی کے ساتھ اسمارٹ زراعت کو مربوط کرنے کی صلاحیت کو اجاگر کیا ہے۔ ایک بیان میں پاور چائنا نے کاشتکاری کے طریقوں کو جدید بنانے اور کارکردگی کو بڑھانے میں جدید ڈرون ٹیکنالوجی کے کردار پر زور دیا۔ کمپنی پاکستان اور اس سے باہر پائیدار، جدید کاشتکاری کے اقدامات میں تعاون کرنے کے لئے پرعزم ہے۔ گوادر پرو کے مطابق چین میں ملٹی اسپیکٹرل اور تھرمل امیجنگ کیمروں سے لیس ڈرونز مٹی کی زرخیزی، نمی کی سطح اور دیگر پیرامیٹرز کا تجزیہ کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے پروسیس کیے جانے والے اعداد و شمار ہدف شدہ کاشتکاری کے اقدامات کی رہنمائی کرتے ہیں، پیداواری صلاحیت کو بہتر بناتے ہوئے اخراجات اور ماحولیاتی اثرات کو کم کرتے ہیں۔ گوادر پرو کے مطابق ان جدید ترین ٹیکنالوجیز کو پاکستان میں لانے کے لیے چینی کمپنیاں پریسیشن فارمنگ، اسمارٹ ایریگیشن اور ڈیٹا اینالیٹکس جیسے حل متعارف کرا رہی ہیں۔ رواں سال کے اوائل میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد نے مصنوعی ذہانت اور اسمارٹ زراعت کے لیے پاک چین مشترکہ لیب کا آغاز کیا تھا۔ اس اقدام کا مقصد زرعی پیداوار کو بڑھانا ہے، خاص طور پر پنجاب میں، جو پاکستان کی سالانہ اناج کی پیداوار کا 76 فیصد ہے۔
گوادر پرو کے مطابق زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر اقرار احمد خان نے پنجاب کے 25 ہزار دیہاتوں میں ڈرون اسپرے ٹیکنالوجی کے امکانات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ بڑے پیمانے پر عملدرآمد سے پیداواری صلاحیت میں اضافہ، اخراجات میں کمی اور پورے خطے میںانٹیلیجنس زراعت کو فروغ مل سکتا ہے۔ گوادر پرو کے مطابق تاہم، زیادہ لاگت اور معاشی رکاوٹیں پاکستان میں ڈرون فارمنگ کو اپنانے میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ پنجاب میں مرچ فارمز پر کام کرنے والی چینی کمپنی ایل ٹی ای سی انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو منیجر ڈاکٹر محمد عدنان نے گوادر پرو کو بتایا کہ ان رکاوٹوں پر قابو پانے کے لیے ٹارگٹڈ حکمت عملی کی ضرورت ہے۔انہوں نے ڈرون کو اپنانے کی سہولت کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات تجویز کیے ۔ گوادر پرو کے مطابق کسانوں پر مالی بوجھ کو کم کرنے کے لئے سرکاری سبسڈی دی جائے ۔ سستی ڈرون کرایہ کی خدمات پیش کرنے کے لئے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی جائے ۔ لاگت کو کم کرنے اور درآمدات پر انحصار کو کم کرنے کے لئے ڈرون ٹیکنالوجی کی مقامی مینوفیکچرنگ کی جائے ۔ ڈرونز کے مناسب استعمال کو یقینی بنانے کے لئے کسان تربیتی پروگرام، آپریشنل اخراجات کو کم سے کم کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔اسٹریٹجک سرمایہ کاری اور تعاون سے چینی ڈرون ٹیکنالوجی پاکستان میں زیادہ موثر اور پائیدار زرعی مستقبل کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی